Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 نئی مردم شماری کا اعلان: آبادی کی گنتی پر تنازع کیوں ہوتا ہے؟

پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی تھی۔ پھر 1961، 1972 ،1981 اور 1998 میں ہوئی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
حکومت نے اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پچھلی مردم شماری کے نتائج پر اعتراض کے بعد فوری طور پر پاکستان میں نئی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے سوموار کو میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ ’مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے فوری نئی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں حکومت نے 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے نتائج کو ماننے کا فیصلہ کیا تھا تاہم اس پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) نے اختلافی نوٹ جمع کرایا تھا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس پر اعتراض کیا تھا۔
اسد عمر کے مطابق نئی مردم شماری کے بنیادی فریم ورک پر چھ سے آٹھ ہفتوں میں کام مکمل ہوجائے گا اور ستمبر یا اکتوبر میں نئی مردم شماری کا عمل شروع ہوجائے گا جسے مارچ 2023 تک مکمل کر لیا جائے گا۔
اگلے عام انتخابات سے قبل نئی مردم شماری پر حلقہ بندی بھی کرائی جا سکیں گی جبکہ نئی مردم شماری کے لیے 23 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا جائے گا۔
اسد عمر کے مطابق 2017 کی مردم شماری پر ملک بھر میں سوالات اٹھائے گئے اور جب ملک کے کئی حصوں سے سوالات اٹھائے جا رہے ہوں تو یہ ملک کی یکجہتی کے لیے اچھی چیز نہیں ہے، اس پر اتفاق رائے اور عوام کو اعتماد ہونا چاہیے۔

مردم شماری اہم کیوں ہے؟

مردم شماری سے مراد آبادی کو گنا جانا ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں کس علاقے کو کتنی نمائندگی ملے گی اس کا فیصلہ آبادی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس لیے مردم شماری بہت اہم تصور کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ مالی وسائل کی تقسیم بھی اسی سے کی جاتی ہے۔ پاکستان کا قومی فنڈ صوبوں اور علاقوں میں کیسے تقسیم ہو گا اس کا فیصلہ قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) آبادی کی بنیاد پر ہی کرتا ہے۔
اس طرح ملک کے اندر جو سماجی اور معاشی منصوبہ بندی کی جاتی ہے کہ فلاں علاقے میں کتنے سکول ہوں گے کتنے ہسپتال یا دیگر سہولیات اس کا تخمینہ بھی آبادی کی بنیاد پر ہی لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نوکریوں میں بھی آبادی کے لحاظ سے کوٹا رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی صوبہ یا علاقہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کی آبادی کم نظر آئے اور اسے کم وسائل پر گزارا کرنا پڑے۔

مردم شماری پر تنازعات کیوں ہوتے ہیں؟

احمد بلال محبوب کے مطابق وسائل کی تقسیم اور پارلیمنٹ میں نمائندگی میں فیصلہ کن کردار کے باعث پاکستان میں اکثر مردم شماری پر تنازعات جنم لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کئی بار مردم شماری تاخیر سے کرائی گئی۔

نئی مردم شماری کے لیے 23 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا جائے گا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان میں روایتی طور پر مردم شماری 10 سال بعد کروائی جاتی ہے۔ سب سے پہلی مردم شماری آزادی کے چار سال بعد 1951 میں ہوئی تھی۔ پھر 1961، 1972 ،1981 اور 1998 میں ہوئی۔
سال 1991 کی مردم شماری سیاسی گہما گہمی کے باعث موخر ہوئی۔ اس کے بعد آخری مردم شماری2017 میں مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں کروائی گئی تھی۔ جس میں پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ بتائی گئی تھی۔
تاہم آج کل کی حکمران جماعت تحریک انصاف اور اتحادی ایم کیو ایم سمیت متعدد جماعتوں نے اس کے نتائج پر اعتراض کیا تھا جس میں سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے۔
زیادہ تر جماعتوں کا اعتراض تھا کہ سندھ خصوصی طور پر کراچی کی آبادی کو مردم شماری میں حقیقت سے کم دکھایا گیا ہے۔ تاہم اعتراضات کے باوجود 2018 کے انتخابات اسی مردم شماری کے مطابق ہوئے تھے اور اس کے لیے قومی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک وقت کے لیے اس کے نتائج مان کر الیکشن کروا دیے جائیں تاہم بعد میں اس پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔

سندھ میں کراچی اور اندرون سندھ میں آبادی کا تنازعہ ہوتا ہے کیونکہ کراچی کی آبادی بڑھتی ہے تو صوبائی اسمبلی میں اس کا کوٹہ بھی بڑھ جائے گا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رکن کابینہ امین الحق نے کا کہنا تھا کہ پچھلی مردم شماری میں کم از کم سندھ اور کراچی کے تین ہزار بلاکس میں آبادی کو کم گنا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ایک بلاک میں قریباً اڑھائی سو گھر ہوتے ہیں۔

مستقبل میں تناز عے سے کیسے بچیں؟

پلڈاٹ کے صدر کا کہنا ہے کہ مردم شماری پر تنازعات صرف صوبوں کے درمیان نہیں ہوتے بلکہ ایک صوبے کے اندر بھی کئی بار مختلف قومیتوں کے اندر بھی گنتی کا تنازع ہوتا ہے۔
جیسا کہ بلوچستان میں بلوچی بولنے والے، پشتو بولنے والے اور آباد کاروں کے درمیان یہ تنازعہ ہوتا ہے کہ کس کی تعداد زیادہ ہے۔ اسی طرح سندھ میں کراچی اور اندرون سندھ میں آبادی کا تنازعہ ہوتا ہے کیونکہ کراچی کی آبادی بڑھتی ہے تو صوبائی اسمبلی میں اس کا کوٹہ بھی بڑھ جائے گا اور سندھ کے وزیر اعلیٰ کا فیصلہ کراچی کے ہاتھ میں آجائے گا۔

پلڈاٹ کے صدر کا کہنا ہے کہ مردم شماری پر تنازعات ایک صوبے کے اندر بھی کئی بار مختلف قومیتوں کے اندر بھی گنتی کا تنازع ہوتا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ تنازع کا حل یہ ہے کہ مردم شماری سے پہلے ساری جماعتیں اصول طے کر لیں۔ مثلاً یہ کہ کراچی کی آبادی کو شہریوں کے مستقل پتے کی بنیاد پر گنا جائے گا یا عارضی پتے کی بنیاد پر۔
انہوں نے مثال دی کہ کراچی میں پشتو بولنے والے افراد کی بڑی تعداد رہتی ہے مگر ان میں سے اکثر کا مستقل پتہ خیبرپختوانخوا کا لکھا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وسائل کراچی کے بجائے دوسرے صوبے کو مل جاتے ہیں۔ اس طرح کے تنازعے حل کرنے کے لیے سیاسی
جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ اصول پہلے طے کرلیں اور بعد میں ان کے نتائج کو تسلیم کریں۔

شیئر: