Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی فوج کا 2020 میں 23 شہریوں کو مارنے کا اعتراف

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں افغانستان میں ہوئی ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
امریکی فوج نے سنہ 2020 میں بیرونی جنگی محازوں پر 23 شہریوں کو غیرارادی طور پر ہلاک کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پینٹاگون کی بدھ کو شائع ہونے والی رپورٹ کے اعداد و شمار میں عراق، افغانستان، صومالیہ، یمن اور نائجیریا میں ہونے والی شہریوں کی ہلاکتیں شامل ہیں۔ تاہم یہ تعداد اس سے بہت کم ہے جو این جی اوز کی جانب سے بتائی جاتی ہے۔
رپورٹ کے ایک حصے کے مطابق ’امریکی محمکہ دفاع کا اندازہ ہے کہ ‘سنہ 2020 کے دوران امریکی فوج کے مختلف آپریشنز میں تقریباً 23 عام شہری ہلاک جبکہ 10 زخمی ہوئے۔‘
کانگریس سنہ 2018 سے اس سالانہ رپورٹ کا مطالبہ کر رہی ہے تاہم اس کے کچھ حصے خفیہ رہیں گے۔
رپورٹ کے پبلک سیکشن کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں افغانستان میں ہوئی ہیں جہاں پینٹاگون نے 20 ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ایک شہری فروری 2020 میں صومالیہ جبکہ ایک مارچ میں عراق میں ہلاک ہوا۔ جبکہ رپورٹ میں اس بات کا تذکرہ نہیں کہ 23 واں شہری کب اور کہاں ہلاک ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ کانگریس نے ہلاک ہونے والوں کے ورثا کی مالی مدد کے لیے 30 لاکھ ڈالر مختص کیے تھے تاہم ایسی کوئی امداد نہیں دی گئی۔
این جی اوز ان علاقوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے اعداد و شمار تسلسل سے جاری کرتی رہی ہیں جہاں امریکی فوجی سرگرم عمل ہیں، جو بتائی جانے والی تعداد سے کافی زیادہ ہیں۔
ایئروارز نامی این جی او جو فضائی حملوں کا نشانہ بننے والے عام شہریوں کی تعداد مرتب کرتی ہے، کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’محتاط اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں امریکی فوجی آپریشنز میں 102 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ تعداد پینٹاگون کی جانب سے بتائی جانے والی تعداد سے پانچ گنا زیادہ ہے۔‘
افغانستان میں یونائیٹڈ مشن (یو این اے ایم اے) کے مطابق امریکی قیادت میں کام کرنے والی فورسز کے آپریشنز کے دوران افغانستان میں 89 عام شہری ہلاک اور 31 زخمی ہوئے۔
اسی طرح صومالیہ جس کے بارے میں پینٹاگون کا کہنا ہے کہ وہاں صرف ایک شہری ہلاک ہوا، وہاں ایئروارز اور دوسری این جی اوز کے مطابق سات افراد ہلاک ہوئے۔
این جی او کے مطابق جبکہ شام اور عراق میں مقامی ذرائع کے مطابق چھ ہلاکتیں ہوئیں۔
 امریکن سول لبریشن یونین (اے سی ایل یو) سے وابستہ حنا شمسی کہتی ہیں کہ ’یہ بات واضح ہے کہ محکمہ دفاع کی تحقیقات اور عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کا اعتراف ناکافی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ امر حیرت انگیز ہے کہ سنہ 2020 میں کانگریس کی جانب سے فنڈز کی فراہمی کے باوجود محکمہ دفاع نے متاثرین کی کوئی مدد نہیں کی اور نہ ہی ان کی زرتلافی کی گئی۔‘

شیئر: