Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’باپ کی جدائی کے زخم بھرے ہی تھے کہ جوان بھائی چلا گیا‘

کانسٹیبل محمد قیصر اور ان کے والد پولیس ڈیوٹی کے دوران حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔ تصاویر بشکریہ لاہور پولیس
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ڈکیتی کے واقعے میں مزاحمت کے دوران پولیس کے ایک کانسٹیبل محمد قیصر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے ہیں۔
پولیس کے مطابق 2 جون کو صبح تین بجے سندر کے علاقے میں چار ڈکیت گاڑیاں لوٹ رہے تھے کہ اسی دوران پولیس کی پارٹی بھی موقع پر پہنچ گئی، ڈاکوؤں کی فائرنگ سے محمد قیصر موقع پر ہی دم توڑ گئے۔  
محمد قیصر کا تعلق لاہور کے علاقے مانگا منڈی سے ہے اور وہ اس گھر میں تیسرے شخص تھے جو پولیس میں بھرتی ہوئے۔ اس سے پہلے ان کے والد اللہ دتا پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھے جو جنوری 2011 میں چہلم امام حسین کے جلوس کے دوران اردو بازار کے قریب ہونے والے خود کش دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے، جس کے بعد ان کے بڑے بیٹے محمد فیصل ان کی جگہ بھرتی ہو گئے۔  
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے محمد فیصل نے بتایا کہ جب ان کے والد دھماکے کا شکار ہوئے تو اس وقت وہ بی اے میں تھے، ان سے چھوٹے بھائی میٹرک میں جبکہ تیسرا چھوٹا بھائی آٹھویں جماعت میں تھا۔
’ابو کے بعد سنہ 2014 میں مجھے پولیس میں اعزازی طور پر بھرتی کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد میرے بھائی قیصر نے اوپن میرٹ پر پولیس میں بھرتی کے لیے درخواست دے دی ابھی ان کا ایف اے مکمل نہیں ہوا تھا، وہ بھی 2017 میں بھرتی ہو گئے۔‘ 
پولیس میں بھرتی کے بعد ایک سال ٹریننگ کا ہوتا ہے جبکہ دو سال پنجاب کانسٹبلری میں نوکری کرنا ہوتی ہے۔
محمد فیصل نےاپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ان کے بھائی محمد قیصر کی 2020 کے آخر میں کانسٹبلری مکمل ہونے کے بعد تھانہ سندر میں انہیں پوسٹ کر دیا گیا۔ محمد قیصر کی کسی بھی تھانے میں یہ پہلی پوسٹنگ تھی۔
’تھانے میں پوسٹنگ ہوتے ہی ان کی منگنی کر دی گئی جبکہ اب ان کی شادی عید الاضحیٰ کے بعد ہونی تھی، لیکن وہ اپنی شادی سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘

کانسٹیبل محمد قیصر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔ فائل فوٹو اے ایف پی

محمد قیصر کی عمر 25 سال تھی اور اہل محلہ کے مطابق وہ انتہائی نڈر قسم کے انسان تھے۔ تھانے میں چھ مہینے کی پوسٹنگ کے دوران ان کا واسطہ تین مرتبہ ڈاکوؤں سے پڑا۔
محمد فیصل بتاتے ہیں کہ وہ پولیس میں چھ سال ہیں لیکن اپنے چھوٹے بھائی کے مقابلے میں انہیں اتنے غیر معمولی حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
’وہ بہادر اور نہ ڈرنے والے انسان تھے۔ ایک مرتبہ تو وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ڈاکوؤں کے تعاقب میں نکلے تو ڈاکو دریا کی طرف ریت میں موٹر سائیکل چھوڑ کر فرار ہوگئے تب بھی ان پر فائرنگ ہوئی تھی۔ اس کے بعد ناکے پر ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو اس گاڑی میں سوار افراد نے بھی فائر کھول دیا۔ اور اب محض چھ مہینے کے اندر یہ تیسرا واقعہ تھا۔‘
محمد فیصل کے مطابق ان کے بھائی پر حملے کے واقعے کی سی سی ٹی فوٹیج موجود ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چار ڈاکو سندر کے علاقے میں ایک دوسری گاڑی کو لوٹ رہے تھے۔
’پہلی ڈکیتی کے بعد پولیس ہیلپ لائن پر کال ہو چکی تھی۔ جیسے ہی پولیس کی نفری نئی ڈکیتی کی جگہ پہنچی تو ڈاکوؤں نے فائر کھول دیا۔ اور پہلی گولی ہی قیصر کو لگی اور وہ جانبر نہ ہوسکے۔ گولی سیدھی ان کی چھاتی پار کر گئی۔‘ 

محمد قیصر کے والد ڈیوٹی کے دران خودکش حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ فائل فوٹو اے ایف پی

مانگا منڈی میں اس گھر کے دو افراد پولیس میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ اب تیسرا اور آخری بیٹا احمد بھی ابتدائی امتحان پاس کر چکا ہے اور وہ بھی پولیس میں بھرتی ہونے کے قریب ہی ہے۔
فیصل نے بتایا کہ ’ابو کے بعد جب ہم بھائی جوان ہوئے تو ابو کے زخم تقریباً بھرنے کو آگئے، ہم سب سیٹل ہو چکے تھے لیکن اب اچانک بھائی کی موت نے ایک دفعہ پھر زندگی میں اندھیرا کر دیا ہے۔‘
فیصل کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ پہلا غم تو سہہ گئی تھیں لیکن اب بیٹے کا غم زیادہ بھاری ہے۔
’ابھی تو نیند کی گولیاں ہی ان کا سہارا ہیں۔ مجھے نہیں پتا ہمارے ساتھ ہی یہ کیوں ہو رہا ہے۔‘ 
محمد قیصر کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد لاہور پولیس نے ان کو اعزاز کے ساتھ دفن کیا ہے۔ ان کے جنازے میں آئی جی پنجاب سمیت پولیس کی تمام اعلیٰ قیادت موجود تھی۔ پولیس نے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ اس خاندان کی قربانیوں کو پورا محکمہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

شیئر: