Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کے بعد سکول واپس آئے تو لگا کوئی نئی جگہ ہے

تقریبا ڈیڑھ سال بعد لاکھوں طلباء کلاس رومز میں واپس آ گئے ہیں۔ (فوٹو روئٹرز)
سعودی عرب میں عالمی وبا کورونا کے باعث تقریبا ڈیڑھ سال تک سکولوں کی بندش کے بعد لاکھوں طلباء 29 اگست سے اپنے کلاس رومز  میں واپس آ گئے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق  طالب علم اپنی  اصلی ذہنی حالت میں جلد  واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ معمول کی زندگی دوبارہ شروع کر سکیں۔ وہ اپنے گھروں کا سکون چھوڑ کرسیکھنے کے لیےسکولوں میں واپس آ رہے ہیں۔
سعودی وزارت تعلیم نے کیمپس میں شرکت کرنے والے طلبا کے لیے نئے قواعد وضوابط کا اعلان کیا ہے۔
ایک 13 سالہ طالبہ حفصہ خالد نے عرب نیوز کو بتایا ہے کہ سکول واپس آنے میں کچھ مسائل درپیش ہیں وہ کورونا وبا کے باعث اپنی سہیلیوں سے رابطے میں بھی نہیں اور ابھی کچھ کلاس فیلوز سکول واپس بھی نہیں آئیں۔
حفصہ نے بتایا کہ جب میں پہلے دن سکول آئی تو لگا کہ یہ کوئی بالکل نئی جگہ ہے۔سکول آنے کی سب سے خوبصورت بات میرے لیے اپنی دوستوں سے ملنا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ انتہائی پرامید ہیں اور اپنی والدہ کے مشوروں پر عمل کر رہی  ہیں۔
ایک سکول کی ذمہ دار 27 سالہ حیات ابو غزالہ نے  کلاس رومز کے معمولات کو ترتیب کرنے کے دباؤ اور وباء کے دوران  کلاس روم میں  ممکنہ پریشانیوں پر روشنی ڈالی ہے۔
حیات ابو غزالہ نے کہا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ طلباء  کے اپنی سہیلیوں کے ساتھ  کتنے رابطے ہیں۔

وزارت تعلیم نے کیمپس آنے والے طلبا کے لیے نئے ضوابط کا اعلان کیا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ  بچوں کو کھل کر بات کرنے کا موقع دیں تاکہ وہ  ہر حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ والدین کو اپنی حدود پہچاننے اور خیال رکھنے کی ضرورت ہے، وہ طلباء کو وسائل سے جوڑ سکتے ہیں۔
ہمیں طلبا کو رائے دینا ہو گی کہ وزارت صحت کی ہدایات پر عمل کریں مگر اتنا دباو مت رکھیں کہ وہ ذہنی تناو کا شکار ہو جائیں۔ طلبا کے گریڈ پر نظر رکھیں اور ان کا مستقبل محفوظ بنائیں۔
ابو غزالہ نے کہا کہ تعلیمی تنظیمیں طلباء کی ذہنی صحت کے انتظام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اس کے لیے سکولوں کو مشیروں اور معالجوں کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں اور طلباء کو اپنی حالت بہتر کرنے کا وقت دینا چاہیے۔
ہمیں طلبا کے  ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ہوگا  اور سکول، اساتذہ اور منتظمین کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
 

شیئر: