Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کیس: ’کالز ریکارڈ سے ثابت نہیں ہوتا کہ ظاہر جعفر نے والد کو کیا کہا‘

خواتین کے حقوق کے کارکنان نے نور مقدم کو انصاف دلانے سے متعلق احتجاجی مظاہرے بھی کیے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت ذاکر کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری میں درخواست گزار وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے ہیں۔
جمعے کے روز اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے درخواست گزار وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نور مقدم کیس بہت زیادہ پیچیدہ نہیں تھا۔
انہوں نے ظاہر جعفر کا پولیس کے سامنے اعترافی بیان پڑھتے ہوئے بتایا کہ ’مذکورہ بیان میں کہا گیا کہ نور مقدم نے شادی سے انکار کیا تو تلخی اور لڑائی ہو گئی، نور مقدم نے دھمکی دی کہ پولیس کیس کر کے ذلیل کراؤں گی، والد کو فون کر کے کہا کہ نور مقدم کو ختم کر کے اس سے جان چھڑا رہا ہوں۔‘
تاہم درخواست گزار وکیل کا کہنا تھا کہ یہ جملہ ظاہر جعفر کے ابتدائی بیان میں شامل نہیں۔ ابتدائی اعترافی بیان کے مطابق ظاہر جعفر نے قتل کے بعد گھر والوں کو واردات سے آگاہ کیا، یہ بات ٹرائل کے دوران شہادت میں ثابت ہو گی کہ کون سا بیان درست ہے۔
خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے ملزم کے بیان کی قانونی حیثیت سے متعلق عدالتی فیصلوں کے حوالہ جات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس کی تحویل میں ریکارڈ کرائے گئے ملزم کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ ملزم کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرانا ضروری ہے، کال ڈیٹا ریکارڈ میں صرف ظاہر جعفر کی والدین کو کالز کا ریکارڈ دیا گیا ہے، ظاہر جعفر نے اپنے والد کو کال پر کیا کہا؟ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا، ابھی تک فون پر بات چیت کا کوئی ٹرانسکرپٹ سامنے نہیں آیا۔‘
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’کال پر بات چیت کا ٹرانسکرپٹ تو تب ہو گا جب کال ریکارڈ ہوئی ہو گی، دنیا بدل رہی ہے، قانون کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔‘
 جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’ہماری پولیس کو تفتیش کے دوران کڑیاں ملانا نہیں آتا، اس کیس سے ہٹ کر بات کی جائے تو ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ٹرائل میں تاخیر ہو گی تو ملزم کو ضمانت نہ ملے، ضمانت نہ ملنے پر کم از کم ملزم جیل میں یہ سزا تو کاٹے۔‘

ابتدائی اعترافی بیان کے مطابق ظاہر جعفر نے قتل کے بعد گھر والوں کو واردات سے آگاہ کیا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

وکیل نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے کہ پراسیکیوشن یا ہم ٹرائل کے دوران اس کے متعلق کوئی شہادت پیش کریں، کال ڈیٹا ریکارڈ میں صرف ظاہر جعفر کے والدین کو کالز کا ریکارڈ دیا گیا ہے، ظاہر جعفر نے اپنے والد کو کال پر کیا کہا؟ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔‘
خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’پولیس کی جانب سے جو کال ڈیٹا دیا گیا ہے وہ ظاہر اور ذاکر کے درمیان ہونے والی کالز کا دیا گیا ہے، واقعہ سے پہلے اور میسجز کا ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔‘
’میسجز کا سارا ریکارڈ پولیس کے پاس موجود ہے، یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کال کرنے والے نے جس کو کال کی کیا وہ ہی کال رسیو کر رہا ہے۔‘
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ امریکا میں تو ٹرائل کو ٹیلی وائز بھی کیا جاتا ہے، ٹیلی وائز کرنے کے حوالے سے ہمارے ہاں ابھی رولز بننے ہیں، سال ڈیڑھ سال پہلے قتل ہو جائے تو دہشت گردی کی دفعات لگا دیتے تھے، سپریم کورٹ نے تشریح کی تو اب یہ پریکٹس رک گئی ہے۔
خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ جرم میں اعانت بھی دانستہ اور منصوبہ بندی کے تحت ہوتی ہے، اگر والد کو قتل کا علم تھا اور پولیس کو بتانے سے قتل رک سکتا تھا تب بھی یہ اعانت جرم نہیں، اس صورت میں بھی اعانت جرم نہیں بلکہ قانون کی الگ دفعات کا اطلاق ہوگا۔

نور مقدم کو عیدالفطر سے ایک دن پہلے اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں قتل کیا گیا تھا۔ (فوٹو: اے پی)

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’ہمارے ہاں ماب جسٹس کا بھی رواج ہے، کچھ ہو جائے تو سڑک پر ہی حساب برابر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
درخواست گزار وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ جوابی دلائل بھی دینا چاہیں گے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دلائل کے بعد جوابی دلائل دینا چاہوں گا، جس کے بعد عدالت نے مدعی مقدمہ شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ سے دلائل طلب کرلیے۔
شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں ایک گھنٹے سے کچھ زائد وقت لوں گا، عدالت نے سماعت 21 ستمبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔ آئندہ سماعت پر مدعی مقدمہ کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ دلائل دیں گے۔

شیئر: