Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سابق چیف جج رانا شمیم نے لندن میں حلف نامہ کیوں جمع کروایا؟

رانا شمیم نے تحریری بیان میں کہا کہ انہوں نے بیان حلفی صحافی انصار عباسی سے شئیر نہیں کیا تھا۔ فوٹو: سکرین گریب
اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس میں اپنے جمع کروائے گئے جواب میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے کہا ہے کہ انہوں نے بیان حلفی اپنی بیوی کی خواہش پر ریکارڈ کروایا ہے۔
توہین عدالت کے شوکاز نوٹس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل کو جمع کروائے گئے تحریری بیان میں رانا شمیم نے اخبارات میں شائع ہونے والے بیان حلفی کی تصدیق کی ہے۔
تاہم سابق چیف جج نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے بیان حلفی صحافی انصار عباسی سے شیئر نہیں کیا تھا نہ ہی متعلقہ میڈیا ارادے سے ریکارڈ کروایا تھا کہ اسے عام کیا جائے۔
رانا شمیم نے کہا کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ  کیے گئے وعدے نے مجبور کیا کہ وہ بیان حلفی ریکارڈ کروائیں۔
انہوں نے بتایا کہ اہلیہ کی اس سال وفات سے قبل ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ حقائق ریکارڈ پر لائیں گے اور اہلیہ سے کیا ہوا وعدہ نبھانے کے لیے جذباتی دباؤ کے تحت بیان حلفی ریکارڈ کیا۔ 
’عدلیہ کو متنازع بنانا مقصد نہیں تھا اگر ایسا ارادہ ہوتا تو بیان حلفی پاکستان میں ریکارڈ کرواتے اور اسے میڈیا میں مشتہر کرتے۔‘ 
رانا شمیم نے تحریری بیان میں لکھا کہ چار جون 2021 کو اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد پہلے غیر ملکی دورے پر امریکہ گئے تو واپسی پر لندن میں دو دن قیام کیا اور اپنے پوتے سے ملاقات کی جو وہاں پر زیر تعلیم ہیں۔
’چونکہ میرا ارادہ اسے پاکستان میں مشتہر کرنے کا نہیں تھا اس لیے مناسب سمجھا کہ بیان حلفی کو پاکستان سے باہر ریکارڑ کروایا جائے اور وہیں نوٹرائز بھی کیا جائے جس کے بعد اسے پاکستان سے باہر محفوظ رکھا جائے۔ اسے لیے لندن میں ریکارڈ کروایا اور ایک سر بمہر لفافے میں اپنے پوتے کے حوالے کیا اور اسے ہدایت کی اسے نہ کھولے نا کسی سے شیئر کریں۔

رانا شمیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے مرحومہ اہلیہ کی خواہش پر بیان حلفی ریکارڈ کروایا۔ فوٹو: ریڈیو پاکستان

ان کا کہنا تھا کہ صحافی انصار عباسی سے فون پر بات کے دوران انہیں اندازہ نہیں تھا کہ حلف نامہ ان تک کیسے پہنچا ہے تاہم یہ ایک عام روایت ہے کہ ایسے بیانات کی ایک کاپی نوٹری پبلک کے پاس بھی ریکارڈ میں رکھی جاتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے وہی درست بتا سکتا ہے جس نے یہ دستاویز عام کی یا انصار عباسی سے شیئر کی۔
سابق جج کا کہنا تھا کہ انہوں نے بیان حلفی پبلک نہیں کیا اس لیے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔
اپنے جواب میں رانا شمیم کا کہنا تھا کہ ان کی سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے گفتگو گلگت میں ہوئی جو پاکستان کی حدود سے سے باہر ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ بیان حلفی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جس گفتگو کا حوالہ ہے وہ 15 جولائی 2018 کی شام چھ بجے ہوئی جب وہ ان کے ساتھ گلگت بلتستان کے ریسٹ ہاؤس میں چائے پی رہے تھے۔
انہوں نے بیان حلفی میں جو کچھ کہا وہ اس پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
رانا شمیم نے کہا کہ انہوں نے بیان حلفی عام نہیں کیا تاہم اگر اس سے عدالت ناراض ہوئی ہے تو انہیں بطور سابق جج اور وکیل اس پر افسوس کا اظہار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔
اپنے بیان کے ساتھ انہوں نے سوشل میڈیا پر چلنے والے بیان حلفی کی کاپی بھی لگائی اور اس کے متن کی تصدیق کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔

شیئر: