Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کہیں پناہ گاہوں سے نکال نہ دیا جائے‘ افغان خواتین کو درپیش ایک اور خوف

افغانستان کی ایک پناہ گاہ میں خواتین ڈرائنگ کی کلاس لے رہی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں 87 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی قسم کے جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تشدد کا سامنا ہے۔ 
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے تین کروڑ 80 لاکھ آبادی والے ملک میں خواتین کے لیے صرف 24 پناہ گاہیں تھیں جن میں سے اکثر عالمی امداد کے تحت چل رہی تھیں۔
طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد بھی چند پناہ گاہیں پریشان حال خواتین کو سہولت پہنچانے کی غرض سے کھلی ہوئی ہیں۔ تاہم یہاں پناہ لینے والی خواتین پر مسلسل یہ خوف طاری رہتا ہے کہ ’کہیں انہیں نکال نہ دیا جائے۔‘
دارالحکومت کابل کی ایک پناہ گاہ میں رہنے والی 22 سالہ فاطمہ نے بتایا کہ یہ شیلٹر ہوم بند ہونے کی صورت میں ان کے علاوہ دیگر 20 خواتین کے پاس رہنے کی کوئی اور جگہ نہیں رہے گی۔
فاطمہ کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے جبکہ ان کے سسرال والوں نے غیرت کے نام پر انہیں قتل کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
لاکھوں کی تعداد میں افغان خواتین فاطمہ کی زندگی گزار رہی ہیں جو کئی دہائیوں سے اپنے حقوق کی جنگ انتہائی خاموشی کے ساتھ لڑ رہی ہیں۔
فاطمہ نے بتایا کہ طالبان جنگجو اور حکام کئی مرتبہ پناہ گاہ کا دورہ کر چکے ہیں۔
’انہوں نے کہا کہ یہ خواتین کے لیے محفوظ مقام نہیں ہے۔ ان کی جگہ گھر میں ہی ہے۔‘
ایک ادارے کی ڈائریکٹر نے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکی فوج کے انخلا سے پہلے ہی انہوں نے غیر مستحکم صوبوں میں موجود پناہ گاہوں میں رہنے والی خواتین کو ان کے رشتہ داروں کے پاس بھیج دیا تھا جہاں انہیں انتقام لینے والے سسرال سے بھی تحفظ مل سکے۔ جبکہ دیگر کو بڑے صوبائی دارالحکومتوں میں قائم پناہ گاہوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

افغانستان میں خواتین کے لیے صرف 24 پناہ گاہیں ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد سے فی الحال پناہ گاہوں کے مستقبل سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
شیلٹر ہوم میں کام کرنے والے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ معاشی بحران کے باعث بے روزگاری میں اضافے سے بھی خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔
’جب معاشی حالات برے ہوں گے، مرد بے روزگار ہوں گے تو تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا۔‘
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خواتین کی افغانستان میں نمائندہ ایلسن ڈاویڈین کا کہنا ہے کہ حالات پہلے ہی بدتر ہو گئے ہیں۔

شیئر: