Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا اور پاکستان کے باہمی تعاون سے خطے کو بہت فائدہ ہو گا

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ال سعود نے پچھلے سال نئی دہلی کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کروانے کی پیشکش کی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا اور پاکستان کے پاس خود کو ترقی دینے اور جنوبی ایشیا اور دنیا میں اپنی پہچان بنانے کے لیے بہت بڑا سماجی سرمایہ اور معاشی استعداد موجود ہے۔ لیکن کشمیر پر ان کا دائمی تنازع جو کئی جنگوں کا باعث بنا ہے، مسلسل انہیں اور خطے کو غربت اور آفت میں ڈالے ہوئے ہے۔ 
1998 میں اس تنازع نے جوہری جہت اختیار کر لی۔ ایک دہائی بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے بات چیت بند کر دی، جو وہ آج بھی نہیں کرتے۔ 
گذشتہ سال اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان متحدہ عرب امارات کی ثالثی کی وجہ سے متنازع علاقے میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائز کی بحالی میں مدد ملی تھی۔ بدقسمتی سے گذشتہ ایک دہائی میں انڈیا میں ہندو قوم پرستی کے عروج اور پاکستان میں مسلسل سیاسی عدم استحکام نے جامع مذاکرات کو روک رکھا ہے۔ 
تاہم اب پاکستان امن کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ جمعے کو سامنے آنے والی نیشنل سکیورٹی پالیسی 2022-26 میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان اندرون اور بیرون ملک اپنی امن پالیسی کے تحت انڈیا سے، اگر وہ جموں و کشمیر تنازع کے پرامن اور منصفانہ حل پر اتفاق کرے تو، تعلقات بہتر بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔‘
2019 میں جموں و کشمیر کا الحاق کر کے نریندر مودی کی حکومت نے متنازع خطے کو داؤ پر لگا دیا تھا۔ اس سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو نقصان پہنچا تھا جو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی منظور کردہ کئی قراردادوں میں درج ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو آغاز سے ہی پاکستان نے اپنی سفارتی مہم میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ 
انڈیا نے ابھی پاکستان کی مشروط امن کی خواہش کا باضابطہ جواب دینا ہے۔ تاہم دونوں ممالک میں سول سوسائٹی کے افراد اپنی اپنی قیادت پر طویل عرصے سے بند بات چیت کو دوبارہ شروع کروانے کے لیے زور ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔ 
دونوں اطراف کے 50 کے قریب دانشوروں نے ’امن کے حصول میں: پاک انڈیا تعلقات میں بہتری‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھنے کے لیے ہاتھ ملائے ہیں، جس کا افتتاح سنیچر کو نئی دہلی میں ہوا۔ 
ان مصنفین میں انڈیا اور پاکستان کے سابق وزرائے خارجہ یشونت سنہا اور خورشید محمود قصوری بھی شامل ہیں۔ 
9/11 کے بعد کے ہنگامہ خیز دور میں اسلام آباد میں سعودی عرب کے سفیر کی حیثیت سے میں جانتا ہوں کہ 2002 میں انڈیا اور پاکستان جنگ اور 2006 میں امن کے کتنے قریب آ گئے تھے۔ محمود قصوری جو ایک ہوشیار اور سمجھدار شخص ہیں، صدر جنرل پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی بنیاد پر وزیر خارجہ یشونت سنہا سمیت اپنے انڈین ہم منصبوں کے ساتھ کشمیر کے تصفیے کے لیے ایک قابل عمل فریم ورک تیار کرنے میں کامیاب رہے۔
اس فریم ورک میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو منجمد کرنا، دونوں اطراف کے کشمیریوں کا خود مختار ہونا، انڈیا اور پاکستان کا متنازع علاقے سے بتدریج اپنی فوجی موجودگی کم کرنا اور انڈیا، پاکستان اور کشمیریوں کا ایل او سی اور اس کے ساتھ ساتھ تجارت اور لوگوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کے لیے ایک مشترکہ میکنزم پر کام کرنا شامل تھا۔ تمام متنازع مسائل کے حل ہونے کی صورت میں پندرہ برس بعد امن اور دوستی کے معاہدے پر دستخط بھی اسی فریم ورک کا حصہ تھا۔

2019 میں جموں و کشمیر کا الحاق کر کے نریندر مودی کی حکومت نے متنازع خطے کو داؤ پر لگا دیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ پاکستان کا اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی کشمیر پر قراردادوں کے موقف سے اور انڈیا کے پاکستان کے ساتھ 1974 کے شملہ معاہدے سے آگے بڑھنے کا بڑا موقع تھا۔ 
یہ تاریخی موقع کیوں گنوا دیا گیا؟ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب ‘Neither a Hawk Nor a Dove’ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی معزولی کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو ایک وجہ بتایا ہے، جس نے پرویز مشرف کے اقتدار کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جبکہ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فوج حقیقتاً انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتی تھی۔ 
ان کے خیال میں دوسری وجہ منموہن سنگھ کی قیادت میں انڈین حکومت کا سیاسی عزم کا فقدان تھا۔ 
دونوں ممالک سیاچن گلیشیئر پر بھی معاہدہ کرنے کے قریب تھے، جو کہ تنازع کشمیر کی ایک نشانی ہے، جہاں ان کے فوجی دستے 1980 کی دہائی سے ہمالیہ کے سب سے زیادہ دشوار گزار خطوں میں سے ایک میں غیر ضروری جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن سیاچن ڈیل کا بھی وہی حال ہوا جو کشمیر فریم ورک کا ہوا تھا۔ 
انڈیا  اور پاکستان پہلے بھی دو طرفہ اور کثیرالجہتی کوششوں سے امن کی طرف گامزن رہ چکے ہیں اوراب بھی دونوں ممالک کی طرف سے ایسے اقدامات لیے جاتے ہیں جس سے دونوں کا ایک دوسرے پر اعتماد بحال رہے۔ 
لیکن جب ان دو ممالک کو تنہا چھوڑ دیا جائے تو لڑائی بڑھنے کے امکان بڑھ جاتے ہیں اور پورے خطے کے مستقبل پر جوہری تباہی کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ 
مجھے یاد ہے اکتوبر 2001 میں افغان جنگ شروع ہونے کے بعد امریکی چاہتے تھے کہ پاکستان اپنی توجہ افغانستان پر مرکوز رکھے۔ لیکن صرف دو ماہ بعد انڈین پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے کے  بعد، جس کا ذمہ دار انڈیا پاکستان میں رہنے والے شدت پسندوں کو ٹھراتا ہے، انڈیا نے دس لاکھ کے قریب فوجی پاکستان سے ملحقہ سرحدوں پر تعینات کردیے اور ان کی دیکھا دیکھی پاکستان نے بھی اپنی سرحدوں پر ایسے ہی اقدامات کیے۔ 
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جون 2002 میں ایک فوجی قافلے پر حملہ ہوا اور یہ حملہ دونوں ممالک کے درمیان ایک جنگ کو جنم دے سکتا تھا اگر اس وقت کے امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل ٹومی فرینکس نے مداخلت نہ کی ہوتی۔ اس واقعے کے بعد امریکی سفارتکاری نے جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کے درمیان کشمیر میں 2003 میں جنگ بندی کا معاہدہ کروایا لیکن یہ جنگ بندی صرف 2008 تک ہی قائم رہ سکی۔ 
اوپر بیان کیے گئے حالات کی روشنی میں پاکستان اور انڈیا کے تعلق کی نوعیت دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر کا اطمینان بخش حل نہیں نکلتا تب تک ان دونوں طاقتوں اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی تقدیروں کا فیصلہ نہیں ہو سکے گا۔اس لیے اس مسئلے کو لازمی اور فوری طور پر حل کیا جانا چاہیے تاکہ اس تنازع کو حل کیا جاسکے، انڈیا، پاکستان اور کشمیر کے عوام کو اس تلخ ماضی سے آزادی دلائی جاسکے جس کا وہ 1947 کی تقسیم ہند سے شکار ہیں۔ 
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ال سعود نے پچھلے سال نئی دہلی کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کروانے کی پیشکش کی تھی۔ 
یہ ایک درست تجویر تھی کیونکہ مملکت میں لاکھوں پاکستانی اور انڈین ورکرز مقیم ہیں اور ہر سال دونوں ممالک سے لاکھوں مسلمان حج و عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب آتے ہیں۔ دونوں ممالک اور سعودی عرب کے درمیان خصوصاً انڈیا کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری حالیہ دور میں بڑی حد تک بڑھی ہے۔

خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب میں اس بات پر بھی زور دیا کہ فوج حقیقتاً انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بدقسمتی سے سعودی قیادت کو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر محتاط رہنا پڑتا ہے جس کی وجہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان رقابت ہے ۔ سعودی قیادت نہ برادر ملک پاکستان کو نظرانداز کرسکتی اور نہ ہی ابھرتے ہوئے انڈیا کو۔ ماضی میں اسلام آباد اور نئی دہلی نے کبھی اور کھبی دوسری بڑی طاقت کے ساتھ جڑ کر دشمنی کو برقرار رکھا ہے جس کا نقصان نہ صرف انہیں بلکہ پورے خطے کو ہوا ہے۔ 
پاکستان اور انڈیا باہمی تعاون کو بڑھا کر بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں اور اس کا فائدہ ان کے دونوں پڑوسی ممالک کو بھی ہوگا۔ جنوبی ایشیا ترقی کے نئے مواقع پیدا کرنے والا خطہ ہے جہاں پر بسنے والے لوگ کی تاریخی طور پر کلچرل شناخت آپس میں مماثلت رکھتی ہے، یہ وہ خاصیت ہے جو دنیا کے کسی اور خطے کو میسر نہیں اور اس خطے کی ترقی کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کی نظر نہیں ہونا چاہیے۔ 
میں خود بھی کشمیری عوام کے حقوق کا ایک پرجوش حامی ہوں جنہیں انڈیا نے بین الاقوامی برادری کی مرضی کے خلاف جا کر مستقل طور مجروح کیا ہے۔ 
موجودہ انڈین حکومت نے تو تمام حدیں ہی عبور کرلی ہیں، یہاں تک کہ ان کی طرف سے اپنے زیرانتظام کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ انڈین حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی جانب سے تعلقات کو نارمل کرنے کے اعلانات کو سنجیدگی سے دیکھے، خاص طور پر اس لیے بھی کیونکہ پاکستان نے تعلقات کی درستگی کو جموں کشمیر کے ’منصافانہ اور پرامن حل‘ سے مشروط کررکھا ہے اور اس طرح مسئلہ کشمیر کے حل کا آپشن اب بھی موجود ہے۔ 

 انڈین حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی جانب سے تعلقات کو نارمل کرنے کے اعلانات کو سنجیدگی سے دیکھے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انڈیا اور پاکستان کے قائدین کو سول سوسائٹی اور خاص طور پر قصوری صاحب جیسے قابل سفارتکاروں کی امن کے لیے تازہ اپیلوں پر توجہ دینی چاہیے جو پہلے ہی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے قابل عمل تجاویز پیش کرچکے ہیں۔ یہ تجاویز دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات کے عمل کو دوبارہ شروع کروانے کی بنیاد بھی بن سکتی ہیں اور اس سے انڈیا کی جانب سے پچھلے دو سالوں میں نواآبادیاتی تبدیلی کرنے کی کوششوں کو بھی مستقل بنیادوں پر پیچھے دھکیلا جاسکتا ہے۔ 
سعودی عرب اور دیگر خلیجی مماملک، جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی اور انڈین شہری رہتے ہیں اور اپنے اپنے ممالک کی معاشی و اقتصادی ترقی میں ترسیلات زر کے ذریعے حصہ ڈالتے ہیں، کو اس مذاکراتی عمل کی حمایت کرنی چاہیے۔ متحدہ عرب امارات نے اس سلسلے کو پہلے سے ہی دونوں ممالک کے درمیان کشمیر میں جنگ بندی کرواکر ایک ٹرینڈ کا آغاز کیا ہے۔ بعد میں سعودی عرب کی جانب سے بھی اس تنازع کے حل کے لیے ثالثی میں دلچسپی دکھائی گئی ہے۔ خلیجی ممالک کے تعاون کی تنظیم بھی ان کوششوں کا حصہ بن کر اس عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔ 
 
 

شیئر: