Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر پریس کلب سری نگر پر ’انتظامیہ کی مدد سے قبضہ‘، پاکستان کی مذمت

رجسٹریشن کی معطلی کے باعث پریس کلب کے الیکشن کا انعقاد غیریقینی ہوگیا ہے (فائل فوٹو: ای پی اے)
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر  میں واقع ’کشمیر پریس کلب‘ میں سنیچر کو ایک تنازعے کے بعد صحافیوں کے ایک گروپ نے کلب کا انتظام سنبھال لیا اور انہیں مبینہ طور پر پولیس کی حمایت بھی حاصل تھی۔
انڈیا اور اس کے زیر انتظام کشمیر کے صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ 
واقعہ کیا تھا؟
جمعے کو سوسائٹیز آف کشمیر کے رجسٹرار نے کشمیر پریس کلب کی رجسٹریشن کو معطل کر دیا تھا جس کے اگلے ہی روز پریس کلب کے انتظامی امور چلانے پر صحافیوں کے دو گروہوں کے مابین شدید تنازع پیدا ہو گیا۔ ۔
صحافیوں کے ایک گروہ نے جسے مبینہ طور مقامی انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل تھی، نے پریس کلب کا انتظام سنبھال لیا اور وہاں کی پہلے سے موجود انتظامیہ پر الزام لگایا کہ وہ اپنی مدت کے ختم ہونے کے باوجود کلب پر غیر قانونی طور پر قابض ہیں۔
سنیچر کی شام کلب کا انتظام سنبھالنے والے صحافیوں کے گروپ نے سلیم  پنڈت کو کشمیر پریس کلب کے صدر کے طور پر ’منتخب‘ کیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق کلب کے منیجر سجاد احمد نے کہا کہ’درجن کے لگ بھگ لوگ پریس کلب میں آئے اور انہوں نے کہا کہ وہ کلب کی عبوری ہیں اور انہوں ہمیں دفتری کمپیوٹرز اور سٹیشنری حوالے کرنے کو کہا۔‘
’جب میں نے ان سے پوچھا کہ خود کو کلب کی عبوری باڈی کس بنیاد قرار دے رہے تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

الیکشن کب سے نہیں ہوئے؟

گذشتہ برس مارچ سے کشمیر پریس کلب کے الیکشن نہیں ہو سکے ہیں۔ 

ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کسی بھی صحافی کو یہ کارڈ نہیں جاری کیے گئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انڈین چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق  کشمیر پریس کلب کی انتظامیہ نے 15 فروری کو الیکشن کے انعقاد کا اعلان  کیا تھا جو کافی عرصے سے زیر التوا تھے۔ اس دوران حکام کی جانب سے کشمیر پریس کلب کی رجسٹریشن معطل کر دی گئی تھی۔
رجسٹریشن کے تعطل کی وجہ سے اب پریس کلب کے الیکشن کا انعقاد غیر یقینی ہوگیا تھا۔
دوسری جانب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے انفارمشین ڈپارٹمنٹ نے گذشتہ مارچ سے اب تک کسی بھی صحافی کو ایکرڈیشن جاری نہیں کیا۔ 
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کسی بھی صحافی کو یہ کارڈ نہیں جاری کیے گئے۔  

پاکستان کا ردعمل

اس واقعے پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے اتوار کو ردعمل دیا اور کہا کہ ’پاکستان نے کشمیری صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کو قابض فورسز کی جانب سے ہراساں کرنے اور ان کی غیر قانونی گرفتاریوں کی مذمت ہے۔‘
’جمعے کو کشمیر پریس کلب پر مبینہ حملہ طاقت کے ظالمانہ استعمال کی عکاسی کرتا ہے اور انڈین مقبوضہ کشمیر میں ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خوفناک جرائم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش ہے۔‘
’انڈیا کی ریاستی دہشت گردی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتی۔‘
کشمیر پریس کلب اور آٹھ صحافتی تنظیموں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’ہم ملک بھر میں موجود صحافتی تنظیموں بشمول پریس کونسل آف انڈیا ، پریس کلب آف انڈیا ، فیڈریشن آف پریس کلبز اور ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انتظامیہ کہ جانب سے لاقانونیت کی پشت پناہی اور جمہوری میڈیا باڈی کا گلا گھونٹنے کے اقدام کا سختی سے نوٹس لیں۔

انڈین زیر انتظام کشمیر کے انفارمشین ڈپارٹمنٹ نے گذشتہ مارچ سے اب تک کسی بھی صحافی کو ایکرڈیشن جاری نہیں کیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کا ردعمل
دوسری جانب ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا  نے بھی اتوار اپنی پریس ریلیز میں کشمیر پریس کلب سری نگر فورسز کی مدد سے انتظام سنبھالنے پت ’تشویش کا اظہار ‘کیا ہے۔
’گلڈ  واقعے سے ایک دن قبل کشمیر پریس کلب کی رجسٹریشن کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے رواں ہفتے کے آغاز سے میں کشمیر پریس کلب نے صحافی سجاد گل کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ 

پریس کلب آف انڈیا کا ردعمل

پریس کلب آف انڈیا نے نے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر ’کشمیر پریس کلب میں پیش آنے والے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے جمہوری عمل کو پرامن انداز میں چلنے دیا جائے۔‘
’ہم لیفٹینٹ گورنر جموں کشمیر منوج سنہا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھیں اور الیکشن کے انعقاد میں تعاون کریں.
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اس واقعے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’ریاستی سرکردگی میں کیا جانے والا قبضہ ہے۔‘

 پی ڈی پی کہ سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ’ کشمیر پریس کلب کی رجسٹریشن کو دانستہ التوا میں ڈالنا حقیقی مسائل اجاگر کرنے والے صحافیوں کی آوازیں دبانے کے مترادف ہے۔‘

 

شیئر: