Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ویکسین کے خلاف احتجاج پر کینیڈین دارالحکومت میں ایمرجنسی

مظاہرہ کرنے والے 29 جنوری کو دارالحکومت اوٹاوا پہنچے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں ویکسینیشن کے خلاف ٹرک ڈرائیورز کے جاری احتجاج پر انتظامیہ کی جانب سے ایمرجنسی لگا دی گئی ہے اور شہر کے میئر نے تسلیم کیا ہے کہ ’حالات قابو سے باہر‘ ہو گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مظاہرین 29 جنوری کو دارالحکومت پہنچے تھے، انہوں نے اپنے ٹرک سڑکوں پر اور گلیوں میں کھڑے کیے اور جگہ جگہ خیمے لگا لیے جس سے شہر کا نظام زندگی مفلوج ہو کر گہ گیا اور شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔
اوٹاوا کے میئر جم واٹسن کی جانب سے ایمرجنسی لگائے جانے کے اعلان کے ساتھ انتظامیہ نے ایک بیان بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’یہ مظاہرین کی وجہ سے بننے والی صورت حال شہر کے رہائشیوں کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
قبل ازیں اتوار کو میئر واٹسن نے صورت حال کو ’مکمل طور پر قابو سے باہر‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مظاہرین کے پاس ہمارے اہلکاروں سے زیادہ لوگ ہیں۔
انہوں نے  سی ایف آر اے ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’یہ بات واضح ہے کہ ہماری تعداد زیادہ ہے، اور ہم یہ جنگ ہا رہے ہیں۔ اس صورت حال کو تبدیل ہونا چاہیے، ہم کو اپنا شہر واپس لینا ہے۔‘
واٹسن نے ٹرک ڈرائیورز کو ’بے حس‘ قرار دیتے ہوئے کہ انہوں نے ہارن اور سائرن بجانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور احتجاج کو پارٹی میں تبدیل کر رکھا ہے۔
ٹرک ڈرائیوروں نے احتجاج امریکہ اور کینیڈا کے بارڈر پر اس وقت شروع کیا جب ان کے لیے کورونا کی ویکسینیشن لازمی قرار دی گئی، تاہم پھر احتجاج کا رخ کورونا وائرس کے ضمن میں ہونے والی بندشوں کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت کے خلاف ہو گیا۔
مقامی رہائشیوں نے شکایت کی ہے کہ ڈرائیور کی جانب سے بجائے جانے والے ہارنز کی وجہ سے ان کو بے آرامی کا سامنا ہے، جبکہ مظاہرین کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور تضحیک کا نشانہ بنائے جانے کی شکایت بھی کی ہے۔
مظاہرین اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ احتجاج کا سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک حکومت کورونا سے متعلق بندشوں کو ختم نہیں کرتی۔
قبل ازیں سنیچر اور اتوار کو بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا تھا اور اس کا دائرہ کینیڈا کے معاشی مرکز ٹورانٹو تک پہنچ گیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق سنیچر کو دارالحکومت اوٹاوا سے شروع ہونے والا احتجاج کا سلسلہ زیادہ تر پرامن مگر شور شرابے سے بھرپور ہے۔
مظاہرے میں شریک رابرٹ نامی شخص، جنہوں نے اپنے نام کا دوسرا حصہ نہیں بتایا، کا کہنا تھا کہ’ہم سب ایسے حکم ناموں اور دھمکیوں سے تنگ آ گئے ہیں جس نے ہماری زندگی کو ایک بڑی جیل تک محدود کر دیا ہے۔‘
مظاہرین نے آٹھ روز تک اوٹاوا کو بند رکھا جن میں سے کچھ نے نازی پرچم اٹھا رکھے تھے جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ وہ کینیڈا کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
وزیر ٹرانسپورٹ عمر الغبرا کا کہنا ہے کہ ’اوٹاوا میں مظاہرین نے اپنا موقف پیش کیا، اور پورے ملک میں ان کی بات سنی گئی ہے۔‘
انہوں نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ گھروں کو جائیں اور منتخب حکام سے بات کریں۔

شیئر: