Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صاحبانِ اختیار کے التفات سے محروم، ’’ننھا پاکستان‘‘

جہاں روزانہ سڑکیں دھلا کرتی تھیں ، آج گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں

- - - - - - - -

*عنبرین فیض احمد ۔ ریاض*

- - - - - - -

کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے،ملک کے چپے چپے سے آنے وا لے لوگ اس شہر میں آباد ہیں، یہ پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتوں کا گلدستہ ہے ،اسی لئے یہ’’ننھا پاکستان‘‘ کہلاتا ہے مگر نجانے کیوں یہ صاحبانِ اختیار کی نظر سے اوجھل ہے، ان کے التفات سے محروم ہے اس شہر پر کیوں نہیں پڑتی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس شہر پر خاص توجہ دی جائے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے ،جیسا ہونا چاہئے تھا۔حالت یہ ہے کہ صاحبانِ اختیار عوام کی آواز سننے کو تیار نہیں۔ انجام یہ ہے کہ اس عروس البلاد کی رونق، رنگ و خوشبو سب کچھ معدوم ہوتی جا رہی ہے ۔ ایک جانب شہر کی آبادی میں اضافہ ہوتاجا رہا ہے اوردوسری جانب صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث یہ شہرکچرا کنڈی کا منظر پیش کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

مکھیوں، مچھروں کی بہتات ہے جس کے باعث ایسی ایسی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں جس کا نام پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ اتنے بڑے شہر میں صفائی ستھرائی کی صورتحال کایہ عالم ہے کہ دن بدن ابتر ہوتی جارہی ہے یعنی بلدیاتی ادارے اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح نہیں نبھا رہے جس کی وجہ سے شہر کے زیادہ تر علاقے گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں کیونکہ کچرا کنڈیاں سڑکوں پر پھیل چکی ہیں۔ ہر سال کیلنڈر میں نیا سال تو شروع ہوجاتا ہے مگر شہر قائد کی قسمت نہیں بدلتی۔ یوں ہی کچرا سڑکوں کی زینت بنتا رہتا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑ رہا ہے اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ بچے بوڑھے، جوان سب ہی موذی بیماریوں کا شکارہو رہے ہیں۔ یہ کچرے اور گندگی کے ڈھیر نہ صرف سڑکوں اور گلیوں تک محدود ہیں بلکہ یہ فلائی اوورز اور چورنگیوں پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ کراچی کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے۔

اس شہر کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کیلئے صحت و صفائی کے مؤثر اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ ماحول دوست عوامل پر بھی فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بد نصیبی سے ہمارا وتیرہ یہ ہے کہ ہم جہاں بھی جو چیز چاہتے ہیں، پھینک دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد اس جگہ رفتہ رفتہ کچرے کا دیوہیکل پہاڑ بن جاتا ہے مگر ہماری انتظامیہ سب کچھ دیکھ کر آنکھیں موند لیتی ہے۔ جس طرح شترمرغ اپنا منہ ریت میں چھپا لیتا ہے، اسی طرح انتظامیہ بھی چپ سادھ کربیٹھ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے صاحبان کے طرز عمل کی عکاسی کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ا نہیں کراچی کے شہریوں کے مسائل سے کوئی خاص دلچسپی نہیں چنانچہ وہ مسائل کی طرف اپنی توجہ مبذول نہیں کرتے۔ دیکھا جائے تو یہ وہ شہر ہے جو اپنی دریا دلی اور وسیع آغوش کے لئے مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ اس شہر کا کوئی بھی شخص بھوکا نہیں سوتا لیکن آج یہ شہر بقعۂ نور کی بجائے مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ وہ شہر جہاںکبھی روزانہ سڑکیں دھلا کرتی تھیں ، آج گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ رواداری و محبت کی جگہ فرقہ واریت اور لسانی نفرت نے لے رکھی ہے۔ صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کے درمیان بیان بازی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ شہریوں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ بلدیاتی نظام کے نام پر کراچی کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ دھنک کے صفحے پر گوجر نالے کا ذکر کیا گیاہے جس پر سے ہر لمحہ لوگوں کا گزر ہوتاہے۔

کراچی شہر کے گنجان آباد علاقے سے مشہور زمانہ گوجر نالہ گزر رہا ہے۔ اس نالے کے اوپر ایک فودی راہ گزر بنادی گئی ہے جو لوگوں کے ہر وقت کے آنے جانے سے جھک چکا ہے۔ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ جہاں اسمبلی میں براجمان ممبران لاکھوں روپے تنخواہوں کی مد میں وصول کر تے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ایوان میں ان کے مل بیٹھنے پر ایک دن کا خرچہ کروڑوں روپے پر محیط ہوتاہے۔

کیا ایسا ممکن نہیں کہ اس قسم کے اخراجات میں کمی کر کے عوام کی آسانی کے لئے پل تعمیر کردیئے جائیں ۔ اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ ایوان میں براجمان صاحبان ویسے ت و عوام کے نمائندگان ہوتے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ طرح طرح کے منصوبے بنا تے ہیں جن سے عوام کے بجائے نجانے کن کن کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کے مسائل حل کرنے سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے ۔

بے چارے شہری ہی اپنی مدد آپ کے تحت حتی المقدور مسائل سے نمٹنے کی سعی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر صاحبانِ اختیار کو عوام کا ، اپنے ووٹروںکا خیال ہوتا تو کم از کم گوجر نالہ یوںکھلم کھلاہر آنے جانے والے کو منہ مہ چڑا رہا ہوتابلکہ اس کے اوپر بہت پہلے کوئی پل تعمیر کیا جاچکا ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحبانِ اختیار کو ترقیاتی کاموں کے لئے رقم دی جاتی ہے اس کے باوجودکوئی کام نہیں ہوتا ۔ یہ رقم نہ جانے کن کن کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ سالہاسال سے جو رقم انہیں دی جارہی ہے ، اگر وہ سچ مچ شہر کے ترقیاتی منصوبوں پر صرف کی جاتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ کراچی ترقی یافتہ شہر وں سے پیچھے ہوتا۔ اگر ہمارے وطن عزیز میںہر ذمہ دار ایمانداری سے کام کرتا تو اسکولوں کی عمارتیں تعمیر ہوتیں، اسپتال کھلتے، سڑکیں تعمیر ہوتیں، پانی کا نظام بہتر ہوتا،کوئی پسماندہ علاقہ ، پسماندہ نہ رہتا مگر کیا کیا جائے، ہمارے ہاں تو بڑے بڑے شہروں کا کوئی پرسان حال نہیں، ایسے میں چھوٹے شہروں ، دیہات اور قصبوں کی کیا بات کی جائے۔آج قانون کو سخت کرنے اور بلا امتیاز احتساب کی ضرورت ہے ۔ پائی پائی کا حساب ہونا چاہئے کہ سرکاری رقوم کہاں جاتی ہیں۔ ایسا نہیں کریں گے تو ملک ترقی نہیں کرسکے گا۔ ہمیں اپنے ملک کیلئے ایسا کرنا چاہئے کیونکہ یہی ہماری پہچان ہے،ہماری شان ہے۔

شیئر: