Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مادری زبانوں کا عالمی دن: ریاست چھوٹی زبانوں کو تسلیم کیوں نہیں کرتی؟

پاکستان میں صرف اردو کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ فوٹو: ایف ایل آئی
انسان کی مختلف شناختیں ہوتی ہیں۔ اس کا نام، اس کا خاندانی نام، اس کا قبیلہ، اس کا علاقہ، اس کی قومیت، اس کا مذہب۔ یہ سب شناختیں ہیں اور ہر شناخت اسے عزیر ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک بہت طاقتور شناخت وہ زبان ہے جو وہ بولتا ہے، کیونکہ دیگر انسانوں سے رابطہ وہ زبان کے ذریعے رکھتا ہے۔
خصوصاً وہ زبان جو اس کا خاندان بولتا ہے اور اس نے پیدائش کے بعد سب سے پہلے وہی زبان سیکھی ہے، اس کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس زبان کو اس کی مادری زبان کہتے ہیں۔ صرف اسی زبان میں وہ اپنے خیالات کے اظہار پر مکمل طور پر قادر ہوتا ہے۔ وہ کسی دوسری زبان میں اگر بولتا یا لکھتا بھی ہے، تو خیالات کو سوچتا اپنی مادری زبان میں ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین انسان کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں دینے کی سفارش کرتے ہیں۔
ایک جابرانہ معاشرہ انسان کی دیگر آزادیوں کے ساتھ ساتھ اس کے تشخص کو بھی دباتا ہے۔ ہمارے ملک میں شروع ہی سے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی گئی کہ وہ اپنی زبانوں پر فخر کریں اور انہیں ترقی دیں۔
اگر کوئی اپنی زبان کی بات کرتا ہے تو اسے ملک کے ساتھ غداری کے مترادف سمجھا گیا۔ ’لسانیت‘ کی اصطلاح کو ایک گالی کی طرح استعمال کیا گیا۔ ایسا فرض کر لیا گیا کہ جو شخص اپنے علاقے یا اپنی زبان سے محبت کرتا ہے وہ ضرور ملک سے نفرت کرتا ہوگا۔ کوشش کی گئی کہ تمام لوگ اپنی اپنی زبانیں ترک کر کے ایک ہی زبان بولنے لگیں۔
ملک کا وہ حصہ تو اس جیسے ایشوز کی وجہ سے بد دل ہو کر ہم سے الگ ہوگیا لیکن پھر بھی کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ اب بھی ایک زبان کے علاوہ باقی زبانوں کو قومی زبان تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ستم طریفی یہ ہے کہ واحد قومی زبان بھی عدم توجہ کے سبب زبوں حالی کا شکار ہے اور اسے صحیح معنوں میں قومی زبان کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔  
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کے لوگ جتنی زبانیں بولتے ہیں ان سب کو ’قومی زبان‘ کا درجہ دیا جاتا۔ لیکن ہمارے ہاں اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کو ’علاقائی زبان‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ گویا علاقوں میں قوم نہیں بستی۔ یا پھر ملک علاقوں سے الگ کوئی وجود ہے۔ 

اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کو علاقائی زبانوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ فوٹو ٹوئٹر 

ستم تو یہ ہے ’علاقائی زبان‘ ہونے کا شرف بھی چند بڑی زبانوں کو حاصل ہے۔ بہت سی زبانوں کو زبان ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس کی مثال میری زبان کھوار کی ہے۔ یہ زبان دو صوبوں کے تین اضلاع میں 22 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر بسنے والے 8 لاکھ افراد بولتے ہیں
یہ ایک قدیم زبان ہے جس میں ہزاروں سال پرانا لوک ادب کا ذخیرہ موجود ہے۔ کوئی تین سو سال سے اس میں باقاعدہ ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ سینکڑوں لوگ اس میں اب بھی لکھتے ہیں اور ان کے پڑھنے والے بھی کم نہیں۔ کئی رسالے اس میں شائع ہوتے ہیں اور ہر سال درجنوں کتب چھپتی اور فروخت ہوتی ہیں۔ کئی ادبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن کے ساتھ ہزاروں لوگ وابستہ ہیں۔
اس کے بولنے والوں کی دلنشین موسیقی ہے جس کا اس کے فوک لور سے گہرا تعلق ہے۔ یہ زبان اپنے فوک لور، شاعری اور موسیقی کے ساتھ پاکستانی اور وسط ایشیائی اثرات کا دلکش امتزاج ہے۔ اس کے بولنے والے اپنی زبان کی لطافت اور فصاحت پر فخر کرتے ہیں۔ مقامی طور پر غیر مہذب گفتگو کرنے والے کو ’نا کھوار‘ کہا جاتا ہے۔  
یہ سب اس کے باوجود ہے کہ اس زبان میں تعلیم کا کوئی انتظام نہیں اور لوگ اس میں لکھنا پڑھنا اپنے طور پر سیکھتے ہیں۔ ریاست تو اسے کوئی زبان تسلیم ہی نہیں کرتی کیونکہ مردم شماری کے وقت اسے ’دیگر زبانوں‘ کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں پاکستان کے دوسرے علاقوں کے بہت کم لوگ جانتے ہیں کیوں کہ ریاست اسے زبان تسلیم نہیں کرتی۔ ایسا کرتی تو یہ قومی منظر نامے پر کہیں نہ کہیں نطر آتی۔  

’علاقائی زبان‘ ہونے کا شرف بھی چند بڑی زبانوں کو حاصل ہے۔ (فوٹو: ایف ایل آئی)

یہ تو شمالی پاکستان کی ایک بڑی اور مستحکم زبان کا حال ہے۔ یہاں بیسیوں اور زبانیں اور بھی بولی جاتی ہیں، ایک آدھ اس سے بڑی اور باقی چھوٹی چھوٹی۔ ان زبانوں کی اپنی تاریخ، روایات، فوک لور، سب کچھ ہے۔ ان کے بولنے والے اپنی زبانوں سے محبت اور ان پر فخر کرتے ہیں۔
کیا یہ سب لوگ اس وجہ سے غدار ہیں کہ وہ اپنی زبانوں سے پیار کرتے ہیں؟ حال یہ ہے کہ ان لوگوں نے پاکستان میں شمولیت کے لیے قربانیاں دی ہیں، جنگیں لڑی ہیں۔ یہ کسی ریڈ کلف ایوارڈ کے نتیجے میں سرحدی لکیر کے اس پار نہیں آئے۔ 

شیئر: