Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عورت:ظاہری طور پر نازک لیکن باطن میں مضبوط

وہ ہر اچھی بات کو ذہن نشین کررہی تھی تاکہ آئندہ زندگی میں بھی دانشمندی کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دے، نازک لمحوں کو سنبھالناہی کامیابی کا راز ہے

اُم مزمل ۔  جدہ

وہ سوچ میں تھی کہ ان دیکھی ڈور کتنی مضبوط ہوتی ہے ۔ نازک رشتے کسقدر بھرپور طاقت کا احساس دلاتے ہیں کہ جب دو اجنبی ایک ہوجاتے ہیں تو گھر کی بنیاد بنتی ہے اور افراد خانہ معاشرے کے بہترین شہری بن کر اپنی استطاعت اور علمیت سے مستفید ہوتے ہیں۔ قوم ترقی کی راہ پر گامزن رہتی ہے۔ وہ استانی صاحبہ کی بات غور سے سن رہی تھی جو آج بتا رہی تھیں کہ عورت جتنی نازک ہے اتنی ہی طاقتور بھی ہے۔ ابھی سورۃ القصص آپ نے پڑھی اس میں کئی عورتوں کا ذکر خاص ہے ۔ حضرت آسیہ کا ذکر ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ یہ (بچہ) میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ (سورہ قصص آیت 8 ) وہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ جنہوں نے مالک حقیقی کی طرف سے الہام پر غیر متزلزل یقین کے باعث حضرت موسیٰ علیہ السلام کوصندوق سمیت بلاخوف و خطر دریا میں چھوڑدیاکہ نہ غرق ہونے کے اندیشے کا شکار اور نہ جدائی پراُداس کیونکہ یقین راسخ تھا کہ وہ ضرور وہ ان تک پہنچ جائیں گے۔ ان کی بیٹی یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہمشیرہ نے دور سے دیکھا اور محل میں سب کو اس جانب توجہ دلائی کہ کیا میں تم کو اپنے گھرانے کے متعلق بتاؤں کہ جو تمہارے لئے اس بچہ کی پرورش کریں۔ (سورۃ القصص آیت 12 کے ترجمہ کا مفہوم) وہ اپنی ٹیچر کی ہر بات غور سے سنتی اور اپنے علم میں اضافہ کرتی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ جب ہمیں کہا جاتا ہے کہ مالک حقیقی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو تاکہ تم فلاح پاؤ تو اسکا مطلب یہ ہے کہ سب مسلمان آپس میں ایک بن کر رہیں۔ اجتماعیت بہت بڑی قوت ہے۔

آج کے زمانے میں بس اسی ایک چیز کی کمی ہے جو ہر جگہ زوال کا سبب بن رہی ہے۔ جب کسی ایک معاملے میں فیصلہ کرنا ہو تو کسی کی کوئی رائے کسی کی کوئی دلیل دراصل اس فیصلہ کن مرحلے کو غیر موثر کردیتی ہے کہ اتنے لوگوں نے اسکی حمایت کی اور اتنے لوگوں نے اس فیصلے کی حمایت نہیں کی۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ جس بات کو درست سمجھا جائے دوٹوک فیصلہ کیا جائے اور اس کو برقرار رکھا جائے پھر جب قوت فیصلہ میں مضبوطی اور اجتماعیت کا اظہار ہوگا تو ہر جگہ کامیابی ملے گی اور اس تربیت میں گھر کا سب سے اہم کردار ہے۔ گھر پر ماں ہی وہ شخصیت ہے جو بچے کے بہت قریب ہوتی ہے۔ اسکی گود بچے کی پوری سلطنت ہوتی ہے۔ جس طرح کوئی دیندار ماں اپنے بچے کو پروان چڑھاسکتی ہے وہ خوبی ہر ایک میں نہیں پیدا ہوسکتی کیونکہ دین ہی وہ راستہ ہے جو بہترین تربیت کے لئے ضروری ہے امر ہے۔

ماں بچے کو بچپن سے ہی نماز کا پابند بناتی ہے اور بڑوں کی عزت اور احترام سکھاتی ہے۔ دراصل ماں اپنے بچوں کوجو بنانا چاہتی ہے وہ خود اس روپ میں ڈھل جاتی ہے۔ کوئی جتنابھی کہتا رہے کہ عورت کمزور یا نازک ہے،کسی کسی جگہ یہ بات درست سہی لیکن ہمت و اطاعت میں اسکا کوئی مقابلہ نہیں۔ دنیا میںتمام علماء کرام، اسکالرز اور بہترین لوگوں نے اپنی علمیت ، قابلیت اور صلاحیت سے اپنا لوہا منوایا اور زندگی کو صرف گزارنا نہیں بلکہ زندگی کو سنوارنا اور بناناسکھایا ۔وہ سب اپنی ماں کے ہی سپوت تھے جن کی معترف آج بھی ایک دنیا ہے۔ ظاہری طور پر نازک سمجھی جانے والی عورت دراصل اپنے باطن میں بہت مضبوط ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کے رتبے کو بھی پہنچتی ہے اور تربیت کے فرائض کی انجام دہی بھی کرتی ہے۔ جو گھر ماں اور باپ کے پرسکون رویے سے بنتے ہیں، وہاں بچے پروقار شخصیت کے مالک بنتے ہیں۔ جہاں دو افراد خانہ بستے ہیں وہاں سرد، گرم حالات بھی گزرتے ہیں ۔ حالات کو اپنی دسترس میں رکھنا ہی عقل مندی ہے حالات کی رو میں بہہ جانا دانشمندی نہیں۔ وہ ہر اچھی بات کو ذہن نشین کررہی تھی تاکہ آئندہ زندگی میں نازک معاملات میں بھی دانشمندی کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دے۔ یہی کامیابی کا راز ہے کہ نازک لمحوں کو سنبھالنا اور آگے بڑھ جانا ۔

شیئر: