Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریکِ عدم اعتماد پر ڈالے گئے ووٹ شمار نہ کرنا توہین ہے: چیف جسٹس

حکومت نے سپریم کورٹ سے چار سوالات پر رائے مانگی گئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’اگر کوئی رکن تحریک عدم کے معاملے پر ووٹ ڈالنا چاہتا ہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا اور اگر کوئی ووٹ ڈالتا ہے تو اس کے ووٹ کو نہ گننا بھی توہین ہے۔‘
جمعرات کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل لارجر بینچ  نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’آئین کا آرٹیکل 63 پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے رکن کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار بتاتا ہے۔ جب کوئی ووٹ دے گا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ عدالت کے سامنے اب سوال یہ ہے کہ ایسے رکن کی نااہلی کی مدت کیا ہوگی؟‘
سماعت کے آغاز سے قبل ہی پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے رہنما کمرہ عدالت پہنچ چکے تھے۔
کمرہ عدالت میں کرسیاں کم پڑ جانے کے باعث شاہ محمود قریشی، شیری رحمان اور نیئر بخاری ایک ساتھ بیٹھے تاہم ان کے درمیان کسی قسم کی گفتگو نہ ہوئی۔ فواد چوہدھری کو سیٹ نہ ملی تو غیر سرکاری وکلا کی اگلی نشستوں پر صوفے کے بازو پر بیٹھ گئے تاہم بعد ازاں انہیں کرسی فراہم کر دی گئی۔ وہ اس دوران صحافیوں سے گپ شپ بھی کرتے رہے۔ 
سماعت کا آغاز ہوا تو کمرہ عدالت کچھا کھچ بھر چکا تھا۔ چیف جسٹس نے حاضرین سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ آج بھی گذشتہ سماعت والا ہی مسئلہ ہے۔ مناسب ہو گا کہ وکلا اور دیگر افراد باہر چلے جائیں۔ جو کھڑے ہیں وہ لاونج میں سماعت سن لیں۔ اس سے پہلے کہ عدالت کو سختی سے باہر نکالنا پڑے۔ جس کے بعد کچھ افراد باہر چلے گئے۔ 
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کے دلائل کے مطابق کس کس کو نوٹس ہونا ضروری ہے؟ سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیے تھے وہ آج موجود ہیں۔ کیا صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی درخواست میں سپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں۔ عدالت چاہے تو صوبوں کو نوٹس جاری کر سکتی ہے۔ صوبوں میں موجود سیاسی جماعتیں پہلے ہی کیس کا حصہ ہیں۔ عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیے۔
ریفرنس پر سماعت سے قبل اٹارنی جنرل عدالت کو گذشتہ سماعت پر ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جے یو آئی اور پی آئی ٹی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی۔ جے یو آئی نے کشمیر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی ہے۔ کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے یہ راستہ ائیرپورٹ کو جاتا ہے۔ کشمیر ہائی وے سے گزر کر ہی تمام جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد آتے ہیں۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوس ناک ہے۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ کا سیکشن 182 اگرچہ عدم اعتماد سے متعلق نہیں ہے لیکن اس کا تعلق بن رہا ہے کیوںکہ یہ قانون کسی کو ووٹنگ سے 48 گھنٹے پہلے جلسے جلوس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے بہتر ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے فیصلوں پر نظرثانی کر لیں۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں گی۔ معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہوگی۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’اگر جلسے پُرامن ہوں گے تو ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امور کو متاثر کرنا نہیں ہوتا۔‘
جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں واضح کیا ہے کہ قانون پر عمل کریں گے۔ ہمارا جلسہ اور دھرنا پُرامن ہو گا۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں۔‘ جس پر عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یو آئی پُرامن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہم نے 14 دفعہ احتجاج کیا ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا ’کیا بات ہے؟‘
سندھ ہاؤس کے معاملے پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے سندھ ہاؤس پر حملے کے حوالے سے آئی جی اسلام آباد سے رابطہ کیا ہے۔ آئی جی اسلام آباد نے یقین دہانی کرائی ہے کہ سندھ حکومت کی اطلاعات کو ایف آئی آر کا حصہ بنایا جائے گا۔ عدالت کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد پولیس کے اقدامات سے مطمئن ہیں۔ 
اس موقع پر جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوس ناک ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے۔‘
جبکہ  جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔‘ 
اس کے بعد صدارتی ریفرنس پر باضابطہ سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اب ہم ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کی پٹیشن صرف اس لیے لگائی گئی تھی کہ انہوں نے کچھ مسائل اٹھائے جو کافی حد تک حل ہو چکے ہیں۔ اب انہیں صرف آئینی مسئلے پر ہی سنیں گے۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یو آئی پُرامن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کا آغاز کیا تو انہوں نے کہا کہ ’یہ ریفرنس ایک ایسے وقت میں دائر ہوا ہے جب کچھ حکومتی ارکان سندھ ہاؤس میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پھر وہاں پر میڈیا کو بھیجا گیا جہاں انہوں نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا کہا۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ ’اگر ضمیر تنگ کر رہا ہے تو مستعفی ہو جائیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’1992 کے بعد سے بہت کچھ ہو چکا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بہت کچھ ہوا لیکن اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئی۔ آرٹیکل 63 اے کے تحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں۔ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد پر ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ ’کیا آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا ذکر ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63 اے کی ہیڈنگ ہی نااہلی سے متعلق ہے۔ نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے۔ ارٹیکل 62-63-63 اے کو الگ الگ نہیں پڑھا جا سکتا۔ عدالت پارلیمانی نظام کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے چکی۔
’آرٹیکل 17 اور 18 عام شہریوں کو آزادانہ ووٹ کا حق دیتا ہے۔ عام شہری اور اراکین اسمبلی کے ووٹ کے لیے قوانین الگ الگ ہیں۔ سیاسی جماعتیں پارٹی نظام کی بنیاد ہیں۔ عدالت نے ماضی میں پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کی آبزرویشن دی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’آپ عام شہری اور رکن اسمبلی کے ووٹ میں فرق بتانا چا رہے ہیں۔ سینیٹ الیکشن ریفرنس میں بھی یہ معاملہ سامنے آیا تھا۔‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’جمہوری نظام میں سیاسی جماعت کمزور ہو تو جمہوری نظام متاثر ہو جائے گا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’امریکہ میں صدارتی نظام کے باوجود ایک سینیٹر آزاد حیثیت سے نہیں ہوتا۔ جنرل ضیا نے سیاسی جماعتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ ’سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن جیتنے والا اور آزاد رکن قومی اسمبلی جو بعد میں پارٹی میں شامل ہوا اس میں کیا تفریق ہے؟‘

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے سندھ ہاؤس پر حملے کے حوالے سے آئی جی اسلام آباد سے رابطہ کیا ہے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’آزاد رکن کو اگر اس جماعت کا منشور قبول نہیں تو اسے پھر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ پانچ سال کی اسمبلی میں اڑھائی سال بعد کشتی تبدیل نہیں کی جا سکتی۔‘ 
جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’ووٹ کا حق رکن اسمبلی کو ملتا ہے نہ کہ سیاسی جماعت کو۔‘ جبکہ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’سیاسی جماعت کی پالیسی کے خلاف ووٹ درحقیقت سیاسی جماعت کو کمزور کرتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’کیا دوسرے جہاز میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جا سکتی ہے؟ زیادہ تر جمہوری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں۔‘
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’یہاں تو صرف پہلے جہاز سے چھلانگ ہی نہیں لگا رہے بلکہ دوسرے جہاز میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبونا چاہتے ہیں۔ چھلانگیں لگتی رہیں تو معمول کی قانون سازی بھی نہیں ہو سکتی۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’آرٹیکل 63 اے اچھے برے کی تمیز کے بغیر پارٹی حکم پر عمل کرنے کی بات کرتا ہے، اصل مسئلہ ہی یہی ہے۔ اراکین کے ادھر اُدھر جانے سے تباہی پھیلے گی۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ ’کیا باقی دنیا میں بھی فلور کراسنگ ہوتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہاں ہوتی ہے لیکن برطانیہ میں کرسمس سے پہلے چیزیں سستی اور ہمارے ہاں رمضان سے پہلے مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اسے ہر ملک کے حالات کے حساب سے دیکھنا چاہیے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’کیا آپ پارٹی سربراہ کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم پارٹی سربراہ کو بادشاہ نہیں بنانا چاہتے لیکن ارکان کو لوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’حال ہی میں بلوچستان اسمبلی کی مثال ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا وہاں پارٹی میں تقسیم ہوئی تھی۔ کسی نے نوٹس نہیں لیا لیکن اب نوٹس لیا گیا ہے۔‘
جب اس بحث نے طوالت اختیار کی تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’آپ کے سامنے ایک سوال ہے کہ کیا آپ ووٹ بیچنے والوں کو پریمیئم دیں گے یا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’آئین میں منحرف اراکین کے لیے ڈی سیٹ کا ذکر ہے۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

اس پر چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میں مداخلت کروں گا۔ رکن کے ڈالے گئے ووٹ پر یہ کہنا کہ شمار نہیں ہو گا یہ ووٹ کی توہین ہے۔ آرٹیکل 63 اے پارٹی پالیسی کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار بتاتا ہے۔ جو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیں گے۔ ان کے خلاف کاروائی  کا آغاز ہوگا۔ الیکشن کمیشن ان کے انحراف پر فیصلہ کرے گا۔ اپیل سپریم کورٹ میں آئے گی تو دیکھیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ کہ منحرف اراکین کی نااہلی کتنی ہوتی ہے؟ نااہلی کا اطلاق کب سے شروع ہو گا؟ ہر معاملہ پارلیمنٹ خود کیوں نہ طے کرے ہمیں اس پر دلائل دیں۔‘
جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم کرپشن اور فلور کراسنگ کی روک تھام چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں 63 اے پنپتا ہوا آرٹیکل ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں ابھی اس سطح پر نہیں پہنچیں کہ پارٹی کے اندر اختلاف رائے کا اظہار کر سکیں۔ اسی وجہ سے لوگ پارٹی چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی جماعت کے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر آپ ناراض بھی ہوں تب بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوں۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’آئین میں منحرف اراکین کے لیے ڈی سیٹ کا ذکر ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’نااہلی تاحیات ہونی چاہیے۔‘
جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ ’یہ تو آپ کی دلیل ہے۔ آپ بار بار ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں حالانکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ گھوڑا روایتی طور پر وفادار جانور ہوتا ہے۔‘
اس پر کمرہ عدالت میں ایک بار پھر قہقہے گونج اٹھے۔
ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر کوئی آپ سے خوش نہیں ہے اور اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے تو آپ اس کو تاحیات نااہل کرانا چاہتے ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل میں 63 اے کی اصل روح اور آئین کی ترتیب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسے ارکان 63 اے کی خلاف ورزی نہیں بھی کرتے اور حکومت جب بھی کوئی قانون سازی لاتی ہے تو وہ اس کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو پارلیمنٹ غیر فعال ہو جاتی ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں ابھی اس سطح پر نہیں پہنچیں کہ پارٹی کے اندر اختلاف رائے کا اظہار کر سکیں۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

بعد ازاں عدالت نے سماعت جمعے کو دوپہر ڈیڑھ بجے تک ملتوی کر دی۔ 

حکومت نے کیا رائے مانگی ہے؟ 

حکومت کی جانب سے دائر کیے جانے والے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے چار سوالات پر رائے مانگی گئی ہے۔ ریفرنس میں پوچھا گیا ہے کہ کوئی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ووٹ دے تو کیا اس رکن کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی؟ اسے ڈی سیٹ نہیں کیا جا سکتا؟  
سپریم کورٹ سے یہ رائے مانگی گئی ہے کہ کیا ایسے رکن جو پارٹی پالیسی سے انحراف کریں اور پالیسی کے خلاف ووٹ دیں تو کیا ان کے ووٹ کو شمار کیا جائے گا؟ 
سپریم کورٹ سے پوچھا گیا ہے کہ کیا جو وفاداری تبدیل کرتے ہوئے رکن پارٹی پالیسی کے خلاف جائے اور ثابت ہو کہ اس نے آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کی ہے تو کیا اسے رکن کو تاحیات نا اہل قرار دیا جائے گا؟ 
چوتھے سوال میں عدالت سے رائے مانگی گئی ہے ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنے کے لیے موجودہ آئینی ڈھانچے میں کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں جس سے فلور کراسنگ کو روکا جاسکے۔  

پہلی سماعت پر کیا ہوا؟ 

گذشتہ ہفتے پہلی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا تھا کہ انہیں تحریک عدم اعتماد کے لیے اسمبلی اجلاس تاخیر سے بلانے کے معاملے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ عدالت کے سامنے صرف بار کی درخواست اور آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس ہے۔

اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو جلسوں سے روکنے کی درخواست پر پیر کی سماعت کا حکمنامہ جاری کیا تھا۔ گزشتہ سماعت میں عدالت نے سپیکر کی جانب سے اسمبلی اجلاس تاخیر سے بلانے کے معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ عدالتی ریمارکس میں کہا گیا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے وکیل 24 مارچ تک تحریری دلائل جمع کرائیں۔ اس سے زبانی دلائل جلد مکمل ہو سکیں گے۔
اس موقع پر عدالت نے اٹارنی جنرل کے عمل کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل کی سیاسی جماعتوں کو ضلعی انتظامیہ سے مل کر جلسوں کے لئے جگہ کے تعین کی تجویز خوش آئند ہے، اٹارنی جنرل سیاسی جماعتوں کے وکلا کی ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کرائیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست اور صدارتی ریفرنس کی اکٹھی سماعت کے لیے پانچ لارجر بینچ کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے نام ایک خط لکھ کر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ 

شیئر: