Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان: یونیورسٹیوں سے متعلق نئی قانون سازی کے خلاف احتجاج

بلوچستان اسمبلی نے نئے قانون کی منظوری پیر کو ہونے والے اجلاس میں دی تھی (ٖفوٹو: ٹوئٹر)
بلوچستان میں منگل کے دن یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین نے صوبائی اسمبلی کی جانب سے نئے منظور کردہ قانون کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
اساتذہ اور ملازمین تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’نئے ایکٹ میں خود مختار اداروں کے بجائے تمام اختیارات وائس چانسلر کو دے دیے گئے جس سے مالی اور انتظامی بے قاعدگیوں کو فروغ ملے گا۔‘
اساتذہ اور ملازمین کی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بلوچستان یونیورسٹی سے ریلی نکالی اور آٹھ کلومیٹر پیدل مارچ کے بعد عبدالستار ایدھی چوک اور پھر پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن بلوچستان چیپٹر کے صدر پروفیسر فرید اچکزئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے تمام یونیورسٹیاں اپنے علیحدہ علیحدہ قوانین کے تحت کام کررہی تھیں۔ اب تمام یونیورسٹیوں کے لیے ایک ہی قانون بنایا گیا ہے، تاہم اس میں وائس چانسلر کو حد سے زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پہلے یونیورسٹی کے معاملات سینیٹ، سینڈیکیٹ اور فنانس کمیٹی جیسے فیصلہ ساز اداروں کی مرضی سے چلائے جاتے تھے اور یہ ادارے وائس چانسلر پر نگراں بھی تھے۔
’ان اداروں میں صوبائی اسمبلی کے ممبران، ہائی کورٹ کے ججز  اور اساتذہ و ملازم تنظیموں کے منتخب نمائندے شامل ہوتے تھے مگر اب سینڈیکیٹ اور کمیٹی میں ممبران کی نامزدگی اور پرو وائس چانسلر کی تعیناتی کا اختیار بھی وائس چانسلر کو دے دیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جن ممبران کا تقرر وائس چانسلر کرے گا وہ کیسے وائس چانسلر کے کسی فیصلے کی مخالف کریں گے۔ اس طرح یونیورسٹیوں میں مالی اور انتظامی بے ضابطگیاں پیدا ہوں گی۔‘
ان کے مطابق ’اٹھارہویں ترمیم کے بعد نئی قانون سازی اور صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنانے کی ضرورت ہے، نئے قانون میں گورنر سے اختیارات لے کر وزیراعلیٰ کو دیے گئے ہیں۔ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں مگر وائس چانسلر کے اختیارات کو محدود کیا جائے۔‘
بلوچستان یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ کا کہنا ہے کہ ’حیرت ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے ممبران نے یونیورسٹیوں کے فیصلہ ساز اداروں میں اپنی ہی نمائندگی ختم کردی ہے۔ یہ تعلیم دشمن فیصلہ ہے اور نئے قانون میں موجود خامیوں کو دور کرنا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی ملازمین کو وفاقی حکومت کے اعلان کردہ الاؤنسز اور تنخواہوں میں اضافہ بھی ہمارے مطالبات میں شامل ہیں۔‘
خیال رہے کہ بلوچستان اسمبلی نے یونیورسٹیز سے متعلق نئے قانون کی منظوری پیر کو ہونے والے اجلاس میں دی تھی۔ حکومتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور حزب اختلاف کی جمعیت علماء اسلام کے ممبران نے قانون کی مخالفت کی اور اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ بھی کیا۔

ملک سکندر خان کے مطابق ’قانون کو متعلقہ کمیٹی میں پیش کیے بغیر اسمبلی سے منظور کرایا گیا۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’قانون کو متعلقہ کمیٹی میں پیش کیے بغیر اسمبلی سے منظور کرایا گیا۔‘
اے این پی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر انجینیئر زمرک خان کا کہنا تھا کہ ’اس بل سے متعلق سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔‘
پشتونخوامیپ کے رکن نصراللہ زیرے کا کہنا تھا کہ ایکٹ میں منتخب عوامی نمائندوں، اکیڈمک سٹاف اور طلبا سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
حکومتی جماعت بی اے پی کے مٹھا خان کاکڑ نے کہا کہ ’بدنیتی کی بنیاد پر قانون سازی نہ کی جائے۔ گورنر کے پاس صرف یونیورسٹیوں کے اختیارات تھے وہ بھی واپس لیے جا رہے ہیں جو درست نہیں۔‘
وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے حکومتی و اپوزیشن ارکان کے اعتراضات کے جواب میں یقین دہانی کرائی کہ قانون میں کوئی کمی یا خامی ہوئی تو اسے بعد میں بھی کابینہ اور ایوان میں بیٹھ کر درست کیا جاسکتا ہے۔
صوبائی وزیر اسد بلوچ نے بل کی حمایت کی اور کہا کہ ملک کے تینوں صوبے اٹھارہویں ترمیم کے بعد اس ضمن میں قانون سازی کرچکے ہیں، اس لیے یہ قانون سازی ضروری تھی۔ 

شیئر: