لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن کے رہائشی وقاص اللہ بیگ کچھ دن قبل ہی ترکیہ سے وطن واپس آئے تھے۔ ان کے ایک جاننے والے نے ترکیہ سے ان کے ذریعے ایک قیمتی بیگ پاکستان بھجوایا تھا، جو وقاص اللہ بیگ نے لاہور کے علاقے ڈیفنس (ڈی ایچ اے) میں واقع ایک نجی سوسائٹی میں پہنچانا تھا۔
وقاص اللہ بیگ نے کئی دن انتظار کیا کہ متعلقہ شخص خود آ کر ان کے گھر سے بیگ لے جائے، تاہم وہ مصروفیت کے باعث نہ آ سکا۔ چنانچہ وقاص نے 16 جولائی کو ان ڈرائیو کے ذریعے یہ بیگ بھجوانے کا فیصلہ کیا۔
16 جولائی کی دوپہر دو بجے انہوں نے ان ڈرائیو ایپ کے ذریعے ایک گاڑی منگوائی اور بیگ ڈرائیور کے حوالے کیا، جسے ڈی ایچ اے کے پتے پر پہنچایا جانا تھا۔
مزید پڑھیں
-
آن لائن بائیک سروس بائیکیا کی ایپ ’ہیک‘ ہونے کے بعد بحالNode ID: 772266
-
سعودی عرب میں پارسل ڈلیوری سروس کے نئے ضوابط، نیشنل ایڈریس لازمیNode ID: 888505
-
برطانوی ڈلیوری سروس کمپنی سعودی عرب میں کام کرنے کی خواہاںNode ID: 889562
وقاص اللہ بیگ کے مطابق بیگ حوالے کرتے وقت ڈرائیور کو واضح طور پر لوکیشن سمجھا دی گئی تھی۔
تاہم بیگ دینے کے پانچ منٹ بعد ہی ان ڈرائیو ایپ پر گاڑی کی لوکیشن غائب ہو گئی۔ وقاص اللہ بیگ نے جب متعلقہ نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی تو وہ نمبر بھی بند ملا۔ کچھ دیر بعد ایپ سے اس ڈرائیور کی آئی ڈی بھی غائب ہو گئی۔
اس طرح ترکیہ سے بھیجا گیا قیمتی سامان، جس کی مالیت 10 لاکھ روپے تھی، اور جس میں قیمتی ملبوسات اور دوسرا سامان شامل تھا، ڈرائیور لے کر غائب ہو گیا۔ اس کے بعد سے ڈرائیور یا سامان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وقاص اللہ بیگ، جو اب دوبارہ ترکیہ میں موجود ہیں، نے بتایا کہ ’اس واردات کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے لیکن نہ تو ڈرائیور کا کچھ پتہ چلا ہے اور نہ ہی سامان کی کوئی خبر ملی ہے۔‘
انہوں نے لاہور کے تھانہ اقبال ٹاؤن میں ایف آئی آر درج کرا دی ہے، اور پولیس نے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے، تاہم متاثرہ شہری کا کہنا ہے کہ نہ تو ان ڈرائیو کمپنی تعاون کر رہی ہے اور نہ ہی پولیس ابھی تک ملزم کو پکڑنے میں کامیاب ہوئی ہے۔‘
پاکستان میں بائیکیا اور ان ڈرائیو جیسی سروسز کے ذریعے اکثر لوگ قیمتی سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجتے ہیں، مگر ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں جب رائیڈر سامان لے کر فرار ہو جاتا ہے۔
اسلام آباد کی رہائشی کنزہ ملک (فرضی نام) کے ساتھ بھی اسی طرح کی واردات پیش آئی جنہوں نے گذشتہ دنوں ان ڈرائیو کارگو بائیک سروس کے ذریعے سیکٹر جی-13 میں واقع ایک درزی کی دکان سے کپڑے منگوانے کے لیے ایک رائیڈر ہائر کیا۔

بائیک رائیڈر نے ان ڈرائیو ایپ کے ذریعے ان سے رابطہ کیا اور تقریباً 80 ہزار روپے مالیت کے مختلف کپڑوں کے سوٹ وصول کیے اور منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ تاہم کافی وقت گزرنے کے باوجود جب رائیڈر کا کوئی پتا نہ چلا تو کنزہ ملک نے ان ڈرائیو ہیلپ لائن پر رابطہ کیا، لیکن ایپ پر رائیڈر کی لوکیشن ظاہر نہیں ہو رہی تھی۔
یوں ان ڈرائیو کا رائیڈر تقریباً 80 ہزار روپے مالیت کے کپڑے لے کر غائب ہو گیا اور متاثرہ خاتون کو نہ کپڑے واپس ملے اور نہ ہی کوئی اور سامان۔
انہوں نے اس معاملے پر ان ڈرائیو کے اسلام آباد میں واقع دفتر کا رخ کیا اور شکایت درج کروائی، مگر ابتدائی طور پر کوئی واضح مدد فراہم نہیں کی گئی۔
کمپنی کی جانب سے صرف ایک شکایتی فارم دیا گیا، جسے پولیس سے مکمل کروانا لازمی قرار دیا گیا تاکہ رائیڈر کی معلومات حاصل کی جا سکیں۔
ان واقعات کے بعد اردو نیوز نے ان ڈرائیو کی اسلام آباد برانچ اور سائبر و انفارمیشن سکیورٹی کے ماہرین سے رابطہ کیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ ان ڈرائیو صارفین کے سامان کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے اور ان کی پالیسی گائیڈ لائنز کیا ہیں یا کیا ہونی چاہییں؟
اردو نیوز نے اسلام آباد میں بلیو ایریا، خیبر پلازہ کے قریب واقع ان ڈرائیو برانچ کی منیجر سارہ سے بات کی۔
انہوں نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’چند دن قبل ایک خاتون شکایت لے کر دفتر آئیں، اور کمپنی نے ان سے مکمل تعاون کرتے ہوئے اپنے پاس موجود تمام معلومات اور رائیڈر کی آخری لوکیشن ان کے ساتھ شیئر کی۔‘

تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ’ان ڈرائیو کمپنی کی پالیسی کے مطابق قیمتی سامان (بالخصوص 3 ہزار روپے سے زائد مالیت کا) ان رائیڈ سروس کے ذریعے نہ بھجوایا جائے۔ ایسے سامان کے لیے وہ صارفین کو تجویز دیتے ہیں کہ وہ رجسٹرڈ کوریئر سروسز کا استعمال کریں یا خود سامان ڈیلیور کریں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کمپنی کے پاس رائیڈر کا شناختی کارڈ نمبر، ان ڈرائیو سے منسلک اکاؤنٹ اور موبائل نمبر موجود ہوتا ہے، مگر اس سے زیادہ تفصیلات کمپنی کے پاس نہیں ہوتیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کمپنی یہ تمام معلومات متاثرہ شہری کو فراہم کر سکتی ہے، جو پولیس کو رپورٹ دے کر قانونی کارروائی کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ ’کوئی رائیڈر اگر اس قسم کی سرگرمی میں ملوث پایا جائے تو اسے ان ڈرائیو پلیٹ فارم سے مستقل طور پر بلاک کر دیا جاتا ہے، اور وہ آئندہ کمپنی کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا کمپنی کوریئر سروس فراہم کرنے والے رائیڈرز سے سامان کی ضمانت یا مالی سکیورٹی کے طور پر کوئی رقم اپنے پاس رکھتی ہے، انہوں نے نفی میں جواب دیا اور واضح کیا کہ کمپنی کی اس حوالے سے کوئی پالیسی موجود نہیں۔
تاہم پاکستان میں ایک اور پارسل اور کوریئر سروس فراہم کرنے والی کمپنی بائیکیا کی ویب سائٹ پر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ پارسل کی انشورنس سروس بھی فراہم کرتی ہے، لیکن یہ کسٹمر کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ آیا وہ یہ سروس حاصل کرتا ہے یا نہیں۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے اسلام آباد کے تھانہ سنبھل کے ایس ایچ او ملک آصف سے رابطہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’متاثرہ خاتون واقعی شکایت لے کر آئی تھیں، تاہم انہوں نے تاحال باقاعدہ طور پر ایف آئی آر درج کروانے کے لیے کوئی درخواست نہیں دی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’خاتون ان ڈرائیو کی جانب سے ایک فارم لے کر آئی تھیں، جسے پولیس سٹیشن سے مکمل کروایا گیا اور وہ فارم واپس لے گئیں، لیکن انہوں نے اس کے بعد ایف آئی آر کے لیے دوبارہ رابطہ نہیں کیا۔‘

ان کے بقول خاتون اس معاملے میں اب تک صرف کمپنی سے ہی مدد حاصل کر رہی ہیں۔
سائبر اور انفارمیشن سکیورٹی کے ماہر ہارون بلوچ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’کوئی کمپنی جب کسی ملک میں اپنی سروسز شروع کرتی ہے تو اسے لائسنس مخصوص شرائط اور پالیسی گائیڈلائنز پر عمل درآمد کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس خاص معاملے میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان ڈرائیو نے پاکستان میں کاروبار کے آغاز کے وقت کن پالیسیز اور قواعد و ضوابط کا دعویٰ کیا تھا، اور آیا وہ اب بھی ان پر عمل کر رہی ہے یا نہیں۔‘
ہارون بلوچ نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی روایتی کوریئر کمپنیاں، جیسے کہ ٹی سی ایس، لیپرڈز اور دیگر، اپنے کورئیر پارسلز کے لیے انشورنس پالیسی رکھتی ہیں، جو صارف کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔‘
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا آن لائن ٹیکسی یا رائیڈنگ سروسز بھی اس طرح کی انشورنس پالیسیز پر عمل کرتی ہیں یا نہیں۔‘