Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کی پی ٹی آئی کو ایچ نائن گراؤنڈ میں احتجاج کی اجازت

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو کشمیر ہائی وے سے ملحق گراؤنڈ میں احتجاج کی اجازت دے دی ہے۔
عدالت نے حکومت کو تحریک انصاف کو احتجاج کے لیے سکیورٹی دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو رکاوٹیں ہٹانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
سپریم کورٹ نے تمام گرفتار رہنماؤں، کارکنان اور وکلاء کو فوری رہا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
عدالت نے تین گھنٹے کے اندر پی ٹی آئی کے جلسے کے لیے ایچ نائن جلسہ گاہ میں سکیورٹی انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔
عدالت نے کہا کہ کسی بھی وقت عدالتی حکم میں رد و بدل کیا جاسکتا ہے اور حکم واپس بھی لیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کو گرفتار نہیں کیا جائے گا، گرفتار کی گئی سیاسی قیادت اور ورکرز کو فوری رہا کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ آج کے جلسے کے لیے پی ٹی آئی حکومت میں جے یوآئی کے جلسے کے لیے  کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے ملک کی سیاسی صورتحال اور راستوں سے بندش سے ہٹانے کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کی جانب سے راستوں کو کھولنے، سری نگر ہائی وے پر احتجاج کی اجازت دینے اور بغیر ایف آئی آر پکڑے گئے کارکنان کی رہائی بارے میں حکومت سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔
سپریم کورٹ میں لانگ مارچ کے دوران راستوں کی بندش اور گرفتاریوں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

عدالت نے حکومت کو تحریک انصاف کو احتجاج کے لیے سکیورٹی دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

دوسرے وفقے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے عدالت سے کہا کہ میں نے عمران خان سے ہدایات لی ہیں اور انھوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کریں گے اور پر امن احتجاج کریں گے جس سے عام شہریوں کی زندگی متاثرنہیں ہوگی۔
انھوں نے عدالت سے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ عدالت حکومت کو سری نگر ہائی وے پر دھرنا دینے، بغیر ایف آئی آر گرفتار کیے گئے کارکنان کو رہا کرنے اور راستوں سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دے۔ عمران خان نے بابر اعوان، عامر کیانی، علی نواز اعوان اور فیصل چوہدری پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو حکومت سے بات چیت کرے گی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ بابر اعوان کے نکات پر وزیر اعظم سے ہدایات لے کر بتائیں۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی سے پوچھا جائے کہ وہ اپنا احتجاج ختم کرے گی؟ اس پر بابر اعوان نے کہا کہ ہمارا اعلان ہے کہ نئے انتخابات کے اعلان تک دھرنا دیں گے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ بھی ہدایات لے کر آئیں ہم اپنے حکم نامے میں ٹائم فریم کے حوالے سے دیکھیں گے۔
عدالت نے سماعت میں وفقہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک گھنٹے بعد دوبارہ سماعت کریں گے۔
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، سکولز اور ٹرانسپورٹ بند ہے، معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے اور دیوالیہ ہونے کے در پر ہے۔

 مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل سے استعفسار کیا کہ کیا انہیں ملکی حالات کا علم نہیں؟ (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟ تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دیے گئے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں تفصیلات کا علم نہیں، معلومات لینے کا وقت دیں۔
 مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل سے استعفسار کیا کہ کیا انہیں ملکی حالات کا علم نہیں؟
جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ  سکولز کی بندش کے حوالے سے شاید آپ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دے رہے ہیں، میڈیا کی ہر رپورٹ درست نہیں ہوتی۔
جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ سکولز کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹیفکیشن جاری ہوئے ہیں۔
عدالت نے ابتدائی طور پر سیکرٹری داخلہ، کشمنر، آئی جی، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو طلب کرلیا۔ عدالت نے چاروں صوبوں کو نوٹس دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کیا۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے، بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں، عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں، راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ  ماضی میں بھی احتجاج کے لیے جگہ مختص کی گئی تھی۔
میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے احتجاج کی اجازت کے لیے درخواست دی تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتظامیہ سے معلوم کرتا ہوں کہ درخواست پر کیا فیصلہ ہوا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے بھی مفاد ہیں۔ (فائل فوٹو: اردو نیوز)

اس موقع پر صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار شعیب شاہین  نے عدالت کو بتایا کہ پولیس وکلا کو بھی گھروں میں گھس کر گرفتار کر رہی ہے۔ سابق جج ناصرہ جاوید کے گھر بھی رات گئے پولیس نے چھاپہ مارا، مظاہرین اور حکومت دونوں ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسلح افراد کو احتجاج کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟
جس پر صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے کہا کہ ابھی تو احتجاج شروع ہی نہیں ہوا تو مسلح افراد کہاں سے آ گئے؟ مولانا فضل الرحمان دو مرتبہ سرینگر ہائی وے پر دھرنا دے چکے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ  ملک کی معاشی صورتحال  تو ہر انسان کو معلوم ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے عدالت کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے۔
 درخواست گزار شعیب شاہین نے کہا کہ  سڑکوں پر شیشے پھینکے جا رہے ہیں، احتجاج تو ختم ہو ہی جائے گا لیکن سڑکیں طویل عرصہ تباہ رہیں گی۔
کے پی کے کے علاوہ سارے ملک کی شاہراہوں کو بند کردیا گیا ہے، وکلا سمیت عام لوگوں کو حراساں کیا جا رہا ہے، راتوں کو لوگوں کے گھروں میں بغیر وارنٹ گھسا جا رہا ہے، احتجاج کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایات موجود ہیں، حکومتی اقدامات غیر آئینی ہیں، بار ایسوسی ایشن صرف شہریوں کے حقوق کے لیے آئی ہے۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کوئی مسلح شخص آیا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے دیکھ لیں گے، جی اٹارنی جنرل صاحب بتائیں کیا ہدایات لی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک انصاف نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی اجازت مانگی۔ سکیورٹی صورتحال کے باعث سری نگر ہائی وے پر اجازت نہیں دی گئی، سکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی جان کو خطرہ ہے۔
 ’سکیورٹی اداروں نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر خود کش حملے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، سپریم کورٹ نے تحریک انصاف اور ضلعی انتظامیہ کو متبادل جگہ کے تعین کی ہدایت کر دی۔‘ 
اڑھائی بجے تک متبادل جگہ کا تعین کرکے آگاہ کیا جائے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ متبادل جگہ کا انتظام کرکے آگاہ کیا جائے۔
 پی ٹی آئی قیادت کو مذاکرات کیلئے مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا، عدالت نے آئی جی اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ کی سرزنش کی۔
 جسٹس مظاہر علی نقوی نے آئی جی اسلام آباد کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ  آئی جی صاحب پولیس کے کارناموں کا وزن بہت زیادہ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ حکومت سے توقع رکھتے ہیں راستوں کی بندش ختم کرے گی، عدالت کی سیکرٹری داخلہ اور پولیس کو فوری طور پر پالیسی پر نظرثانی کی ہدایت کردی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے، حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان پر خودکش حملے کا خطرہ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ اصل ایشو سے دور جا رہے ہیں، کیا پولیس چھاپے مار کر لیڈرز اور کارکنوں کو حفاظتی تحویل میں لے رہی ہے؟
راتوں کو گھروں میں چھاپے مارنے میں کیا مزا آتا ہے؟ حکومت کو سرینگر ہائی وے کا مسئلہ ہے تو لاہور سرگودھا اور باقی ملک کیوں بند ہے؟
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا سیاسی قیادت کو خطرہ صرف سرینگر ہائی وے پر ہی ہے؟ جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ سیکرٹری داخلہ صاحب جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری لیتے ہیں؟ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ لاء اینڈ آرڈر صوبوں کا کام ہے، جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ کیا وزارت داخلہ صرف ڈاکخانے کا کام کرتی ہے؟
 اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ نے کوئی پالیسی ہدایات جاری کی ہیں؟ سیکرتڑی داخلہ نے کہا کہ وزارت داخلہ نے صوبوں کو کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب اپنے اختیارات کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سب بہاریں پاکستان کی وجہ سے ہی ہیں، پاکستان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے،  تحریک انصاف نے عدالت کو پرامن احتجاج کی یقین دہانی کروا دی، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ  کسی سیاسی جماعت کا مفاد ملکی اور عوامی مفاد سے بالاتر نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سیاست میں کبھی ایک کی حکومت ہوتی ہے کبھی دوسرے کی۔
 اٹارنی جنرل نے کہا کہ  سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر احتجاج اور باہمی احترام کا میثاق کرنا ہوگا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ لوگوں کے گھروں میں چھاپے مارنا خلاف قانون ہے، جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دئیے کہ حکومتی عہدیداران کے بیانات دیکھیں، بطور حکمران آپکا کام ہے کہ پہل کریں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ڈاکٹرز کے لیے ہسپتال جانا مشکل ہو چکا ہے، کاروبار نہیں چلے گا تو لوگوں کے بچے کھائیں گے کہاں سے؟
جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ حساس اداروں کی رپورٹس پر ہی کارروائی ہو رہی ہے، عدالت نے آج اڑھائی بجے تک فریقین متبادل جگہ سے عدالت کو آگاہ کریں، سپریم کورٹ نے فیصل چوہدری کو تحریک انصاف کی قیادت سے رابطے کی ہدایت کردی۔

شیئر: