Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کے ’مینگو مین‘ جن کے باغ میں ’ایشوریا رائے اور سچن ٹنڈولکر‘ بھی

کلیم اللہ کے درخت سے کئی برسوں میں آم کی 300 سے زائد اقسام کی پیداوار ہوئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
82 سالہ انڈین شہری کلیم اللہ خان روز صبح سویرے اُٹھ کر نماز پڑھتے ہیں پھر اپنے 120 سال پُرانے آم کے پیڑ کو دیکھنے کے لیے چلے جاتے ہیں جو ان کے گھر سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر ہے۔
اس درخت کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے کئی برسوں میں آم کی 300 سے زائد اقسام کی پیداوار ہوئی ہے۔
کلیم اللہ جب آم کے درخت کے قریب پہنچتے ہیں تو ان کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں، وہ اپنے چشمے سے شاخوں  کا غور سے معائنہ کرتے ہیں اور پھلوں کو سونگھتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ پک کر تیار ہو گئے ہیں یا نہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انہوں نے ملیح آباد کے چھوٹے سے قصبے میں واقع اپنے باغ میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ میرا انعام ہے جو مجھے کئی دہائیوں تک چلچلاتی دھوپ میں سخت محنت کے بعد ملا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دیکھنے والوں کے لیے یہ صرف ایک درخت ہے لیکن اگر آپ سوچیں تو یہ ایک درخت، ایک باغ اور دنیا کا سب سے بڑا آموں کا کالج ہے۔‘
کلیم اللہ نے سکول چھوڑنے کے بعد نوعمری میں ہی آم کی نئی قسمیں تیار کرنے کے لیے گرافٹنگ کا تجربہ کیا۔
انہوں نے سات نئے قسم کے آموں کی پیداوار کے لیے ایک درخت کی دیکھ بھال کی لیکن وہ طوفان سے اڑ گیا۔

کلیم اللہ نے سکول چھوڑنے کے بعد نوعمری میں ہی آم کی نئی قسمیں تیار کرنے کے لیے گرافٹنگ کا تجربہ کیا (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم ان کا کہنا ہے کہ 120 سالہ درخت 1987 سے ان کے لیے فخر اور خوشی کا باعث رہا ہے جو آم کی 300 سے زیادہ اقسام کا ذریعہ ہے جن کا رنگ، ذائقہ، ساخت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
ان آموں میں سے ایک قسم کا نام انہوں نے بالی وڈ اداکارہ 1994 میں مس ورلڈ کا مقابلہ جیتنے والی ایشوریا رائے بچن کے نام پر رکھا جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ’اب تک کی بہترین تخلیق‘ تھی۔
کلیم اللہ خان کے بقول ’آم اداکارہ کی طرح خوبصورت ہے۔ اس کی بیرونی رنگت سرخی مائل ہے جبکہ ذائقہ بھی بہت میٹھا ہے۔‘
اسی طرح دیگر اقسام کا کا نام انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی اور کرکٹ ہیرو سچن ٹنڈولکر کے اعزاز میں رکھا۔
آٹھ بچوں کے والد کلیم اللہ خان کا کہنا ہے کہ ’لوگ آئیں گے اور جائیں گے لیکن آم ہمیشہ رہے گا۔ برسوں بعد جب بھی یہ سچن آم کھائے جائیں گے، لوگ کرکٹ کے ہیرو کو یاد کریں گے۔‘

شیئر: