Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں طالبان حکومت کا ایک سال

طالبان جنگجوؤں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ان کی تحریک اب اقتدار میں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اقتدار میں واپسی کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد افغان طالبان ملک بھر میں عام تعطیل منا رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مسائل سے دوچار گزشتہ ایک برس میں افغان خواتین کے حقوق کچل دیے گئے اور انسانی بحران مزید سنگین ہوتا گیا۔
ٹھیک ایک سال قبل امریکی حمایت یافتہ اشرف غنی کی حکومت کے خلاف کارروائیاں کرنے کے بعد سخت گیر اسلام پسندوں نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔
گزشتہ برس 15 اگست کو اس وقت کے صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے کے چند گھنٹے بعد کابل میں داخل ہونے والے ایک جنگجو نعمت اللہ حکمت کا کہنا ہے کہ ’ہم نے جہاد کی ذمہ داری پوری کی اور ملک کو آزاد کرایا۔‘
غیرملکی افواج کا افراتفری میں انخلا 31 اگست 2021 تک جاری رہا۔ لاکھوں افراد اس امید کے ساتھ کابل کے ایئرپورٹ پر پہنچے تھے کہ کسی بھی پرواز سے ملک سے باہر چلے جائیں گے۔
ایئرپورٹ پر ہجوم دیکھا گیا۔ اس میں ایسے افراد بھی شامل تھے جنہوں نے چلتے ہوئے امریکی کارگو جہاز پر لٹکنے کی کوشش کی اور ان کے گرنے کی خبریں دنیا بھر میں نشر ہوئیں۔
طالبان حکام نے ابھی تک سرکاری سطح پر تقریبات کا اعلان نہیں کیا ہے تاہم سرکاری ٹیلی ویژن پر سپیشل پروگرامز نشر کیے جائیں گے۔
طالبان جنگجوؤں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ان کی تحریک اب اقتدار میں ہے۔

ملا حسن اخوند کو طالبان کی حکومت کا وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ملک کی 38 ملین افراد کی نصف آبادی کو انتہائی غربت کا سامنا ہے۔
نعمت اللہ حکمت جو صدارتی محل کی حفاظت پر مامور خصوصی دستے کے رکن ہیں، نے مزید کہا کہ ’جب ہم کابل میں داخل ہوئے اور امریکی چلے گئے تو وہ لمحات خوشی کے تھے۔‘ 
تاہم عام افغانوں اور خاص طور خواتین کے لیے طالبان کی واپسی نے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

’زندگی کا مقصد کھو گیا‘

اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے اپنے پہلے دور حکومت کی نسبت نرم رویہ اختیار کرنے کا وعدہ کیا لیکن بعد میں خواتین پر متعدد پابندیاں عائد کی گئیں۔  
ہزاروں لڑکیاں آج بھی سیکنڈری سکول نہیں جا سکتی جبکہ خواتین کو سرکاری نوکریوں پر جانے سے روک دیا گیا۔
اور مئی میں خواتین کو عوامی مقامات پر مکمل پردہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
کابل کی رہائشی اوگئی امیل کا کہنا ہے کہ ’جس دن طالبان حکومت میں آئے، زندگی کا مقصد کھو گیا۔ ہم سے سب کچھ چھین لیا گیا۔ وہ ہمارے ذاتی زندگیوں میں بھی داخل ہوگئے ہیں۔‘

طالبان کے کنٹرول کے بعد خواتین مسلسل اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سنیچر کو طالبان جنگجوؤں نے کابل میں احتجاج کرنے والی خواتین پر فائرنگ کی اور ان کو مارا پیٹا۔
افغان جو طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد تشدد میں کمی کو تسلیم کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا کہنا ہے کہ انسانی بحران نے بہت سے افغان شہریوں کو بے یار و مددگار کر دیا ہے۔
قندھار کے ایک دکاندار نور محمد نے کہا کہ ’ان کی دکان پر آنے والے لوگ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔ ہم دکانداروں کو خود سے نفرت سی ہو گئی ہے۔‘
کابل کے پارک میں موجود ایک طالب جنگجو کا کہنا ہے کہ ’ہم غریب ہو سکتے ہیں، ہم مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں لیکن اسلام کا سفید پرچم افغانستان پر ہمیشہ کے لیے بلند رہے گا۔‘

شیئر: