Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان سے فوج کا انخلا ایک غلطی تھی: سابق امریکی جنرل کا اعتراف

سابق امریکی جنرل فرینک میک کینزی کا کہنا ہے ’ہمیں کم تعداد میں افغانستان میں رہنا چاہیے تھا۔‘ (فوٹو: پولیٹیکو)
جنرل فرینک میک کینزی، جو یکم اپریل کو امریکی فوج سے ریٹائر ہوئے ہیں، اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے جا رہے تھے جب انہیں اطلاع ملی کہ کابل پر قبضہ ہو چکا ہے۔
یہ 15 اگست 2021 تھا اور امریکی سینٹرل کمانڈ کے اس وقت کے کمانڈر نے کئی ہفتوں تک بے چینی اور افراتفری سے بھرپور صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جب گروپ نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔
امریکی جریدے پولیٹیکو کے مطابق جنرل فرینک میک کینزی اس دن دوحہ جا رہے تھے تاکہ طالبان کو ایک معاہدے کی پیشکش کر سکیں۔ اس معاہدے سے طالبان کو اس بات پر راضی کرنا مقصود تھا کہ وہ اپنی فورسز کو دارالحکومت سے باہر رکھیں تاکہ امریکہ اپنی فوج اور افغان شہریوں کو شہر سے نکال سکے۔
معاہدے میں طالبان کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ (امریکی فوج) ان سے نہیں لڑے گی۔
تاہم میک کینزی کے دوحہ پہنچنے سے پہلے ہی طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ طالبان پہلے ہی صدارتی محل کے اندر موجود تھے اور افغانستان کے صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔
اس طرح جس افغان حکومت جس کو امریکہ نے 20 سال تک قائم رکھنے کے لیے اتنی محنت کی تھی وہ چند ہی گھنٹوں میں گر گئی۔
میک کینزی نے اس لمحے جلد ہی فیصلہ کرنا تھا، ان کا کابل کے ایک فعال ہوائی اڈے سے بڑے پیمانے پر انخلا کا مشن تبدیل نہیں ہوا۔ لہذا وہ ایک نئی پیشکش کے ساتھ سامنے آئے اور طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر سے کہا کہ ’اس انخلا میں مداخلت نہ کریں، ہم حملہ نہیں کریں گے۔‘
جنرل ریٹائرڈ فرینک میک کینزی نے کابل پر طالبان کے قبضے کے ایک سال بعد ویڈیو کال کے ذریعے پولیٹیکو میگزین سے بات کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملاقات میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت امریکہ کو ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھالنے کی اجازت مل گئی۔ اس طرح دو ہفتوں میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد لوگوں کا انخلا ممکن ہوا۔
کیا افغانستان سے انخلا ایک غلطی تھی؟ انہوں نے اعتراف کیا کہ ’ہاں لیکن یہ میرے کرنے کا فیصلہ نہیں تھا۔‘

فرینک میک کینزی کا کہنا تھا کہ ’ہماری انٹیلی جنس نے ہمیں بتایا ہے کہ طالبان ممکنہ طور پر القاعدہ کو دوبارہ سے سر اٹھانے کی جگہ دیں گے۔‘ (فوٹو: پولیٹیکو)

فرینک میک کینزی نے بتایا کہ ’میرا خیال ہے کہ ہمیں وہاں رہنا چاہیے تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہوا وہ اس بنیادی فیصلے کی وجہ سے ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میری تجویز تھی کہ ہم (افغانستان میں) اپنی کم تعداد میں فوج رکھیں، جہاں ہم افغانوں کے ساتھ تعاون جاری رکھ سکیں۔ یہ تجویز نہیں مانی گئی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ بائیڈن انتظامیہ کو کتنا قصوروار ٹھہرانا چاہیے تو فرینک میک کینزی کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ دونوں انتظامیہ ہی افغانستان چھوڑنا چاہتی تھیں۔ یہ فیصلہ دونوں صدور کو کرنا تھا۔ میں نے کچھ مختلف تجویز کیا۔ لیکن فیصلہ انہوں نے کرنا تھا۔‘
فرینک میک کینزی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری انٹیلی جنس نے ہمیں بتایا ہے کہ طالبان ممکنہ طور پر القاعدہ کو دوبارہ سے سر اٹھانے کی جگہ دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ داعش سے چھٹکارا حاصل کرنے سے بھی قاصر ہیں۔‘

شیئر: