Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بغیر کسی کام کے معاوضہ، جاپانی شخص نے ’خود کو کرائے پر دے دیا‘

شوجی موریموتو کے ٹوئٹر پر چار لاکھ کے قریب فالوورز ہیں (فوٹو: روئٹرز)
جاپان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا ایسی ملازمت کا خواب بالآخر پورا ہو گیا جس میں کچھ نہ کرنا پڑے اور پیسے ملتے رہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹوکیو کے رہائشی 38 سالہ شوجی موریموتو ایسا کام کر رہے ہیں جس میں انہیں 10 ہزار ین (71 ڈالر) فی گھنٹہ ملتے ہیں اور ان کا کام صرف اپنے کلائنٹس کے ساتھ بطور ’کمپینیئن‘ رہنا ہے۔
موریموتو نے روئٹرز کو بتایا کہ ’بنیادی طور پر میں نے خود کو کرائے پر دے رکھا ہے، میرا کام صرف یہ ہے کہ کلائنٹ مجھے جہاں دیکھنا چاہتے ہیں میں وہاں موجود رہوں، اس کے علاوہ میرا کچھ خاص کام نہیں۔‘
ایک عام اور سادہ سا ڈیل ڈول رکھنے والے موریموتو کے ٹوئٹر پر چار لاکھ کے قریب فالوورز ہیں جن میں سے زیادہ تر ان کے کلائنٹس ہیں اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ان کو اڑھائی سو ے زیادہ مرتبہ ملازمت پر رکھا۔
کچھ نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ موریموتو سب کچھ کریں گے کیونکہ کمبوڈیا سے انہیں ایک اچھی آفر ملتی تھی، جس کو انہوں نے ٹھکرا دیا تھا جس میں وہاں منتقل ہونا بھی شامل تھا۔
پچھلے ہفتے موریموتو ساڑھی میں ملبوس 27 سال ارونا چڈا کے سامنے بیٹھے تھے اور چائے اور کیک کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔

موریموتو کو پچھلی ملازمت پر اکثر ڈانٹ پڑتی تھی کہ وہ کچھ کرتے نہیں (فوٹو: روئٹرز)

چِڈا رات کے وقت انڈین لباس پہن کر باہر نکلنا چاہتی تھیں تاہم ساتھ ہی انہیں فکر تھی کہ شاید اس سے ان  کے دوستوں کو شرمندگی اٹھانا پڑے گی، اسی مسئلے کو سلجھانے کے لیے انہوں نے موریموتو سے رابطہ کیا تھا۔
چڈا کہتی ہیں کہ ’جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں نے ان کے ساتھ تفریح کرنا ہے جبکہ میں اس کرائے کے آدمی (موریموتو) کے ساتھ ہوتی ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں۔‘
اپنے خوابوں کے مطابق ملازمت حاصل کرنے سے قبل موریموتو ایک اشاعتی ادارے کے ساتھ کام کرتے تھے اور اکثر انہیں اس بات پر ڈانٹ پڑتی تھی کہ وہ ’کچھ بھی نہیں کرتے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میں اکثر سوچتا تھا کہ میں اپنی کچھ نہ کرنے کی صلاحیت کو بطور سروس کلائنٹس کو فراہم کروں تو کیا ہو گا۔‘
وہ اپنے کام کو ’کمپینین شپ‘ کا نام دیتے ہیں اور یہی اب ان کا آمدنی کا ذریعہ ہے اور اسی سے ہی وہ اپنے بیٹے اور بیگم کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

مویموتو کمپینین شپ کے کام سے وابستہ ہیں (فوٹو: روئٹرز)

اگرچہ انہوں نے واضح نہیں کیا کہ وہ مجموعی طور پر کتنا کماتے ہیں تاہم اتنا بتایا کہ وہ روزانہ ایک دو کلائنٹس سے بات کرتے ہیں جبکہ کورونا وبا سے قبل یہ تعداد چار تک تھی۔
انہوں نے بدھ کا روز بھی حسب معمول کچھ نہ کرتے ہوئے گزارا اور ایک ایسے معاشرے پر سوال اٹھایا جو پیداواری صلاحیت کے حامل افراد کو تو اہمیت دیتا ہے اور بیکاری کا مذاق اڑاتا ہے
ان کے مطابق ’لوگوں کا خیال ہے کہ میرا کچھ نہ کرنے کا کام بہت اچھا ہے کیونکہ یہ مفید ہے (دوسروں کے لیے)، یعنی کچھ نہ کرنا ٹھیک ہے۔‘

شیئر: