Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسٹیبلشمنٹ کے بجائے حکومت پر تنقید، کیا عمران خان کا لہجہ تبدیل ہو رہا ہے؟

عمران خان نے حالیہ جلسوں میں اپنے خطاب میں لفظ ’نیوٹرلز‘ کا استعمال نہیں کیا (فوٹو: اے ایف پی)
سابق وزیراعظم عمران خان کے لب و لہجے میں گزشتہ کئی دنوں سے تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ عمران خان جن کے خطاب میں اکثر’نیوٹرلز‘ کا ذکر ہوتا ہے اب مہنگائی اور حکومتی معاشی پالیسیاں ان کے نشانے پر ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی حالیہ عوامی جلسوں میں کی گئی تقاریر کا جائزہ لیں تو انہوں نے اپنے خطاب میں لفظ ’نیوٹرلز‘ کئی ہفتوں سے استعمال نہیں کیا البتہ وہ اپنے خطاب میں طاقتور حلقوں وغیرہ جیسے الفاظ اب استعمال کر رہے ہیں۔ 

عمران خان کی تقاریر میں لہجہ کب سے تبدیل ہونا شروع ہوا؟

سابق وزیراعظم عمران خان کے سرگودھا جلسے کے بعد ان کے انداز و بیان میں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ یکم ستمبر کو سرگودھا جلسے میں عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ‘بند کمرے میں فیصلے کیے جا رہے ہیں کہ مجھے ناک آؤٹ کیا جائے، میں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کر رکھی ہے جس میں ان چار لوگوں کے نام ہیں اگر مجھے کچھ ہوا تو قوم ان کو معاف نہیں کرے گی۔‘
سرگودھا جلسے کے بعد عمران خان نے گجرات، بہاولنگر، فیصل آباد، پشاور، بہاولپور، ملتان اور گجرانوالہ میں جلسے کیے تاہم ان جلسوں میں عمران خان کی جانب سے ہدف تنقید اسٹیبلشمنٹ کے بجائے حکومت اور ان کے سیاسی حریف رہے ہیں۔ 
سابق وزیراعظم عمران خان نے چار ستمبر کو فیصل آباد جلسے میں آرمی چیف کی تقرری سے متعلق ذکر کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’ آرمی چیف کی تقرری میرٹ پر ہونی چاہیے۔ کسی کا پسند کا آرمی چیف نہیں ہونا چاہیے۔‘ 

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کا لب و لہجہ مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ہونی والے بیک ڈور رابطے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس خطاب پر فوج کے ترجمان ادارے کی جانب سے رد عمل سامنے آنے کے بعد عمران خان نے پشاور جلسے میں وضاحت پیش کی اور کہا کہ ‘فوج بھی میری اور ملک بھی میرا، میں فوج پر تنقید اصلاح کے لیے کرتا ہوں۔‘
سابق وزیراعظم اس سے قبل آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سوال کے جواب پر معاملے کو وزیراعظم کے اختیار کو قرار دیتے رہے لیکن 12 ستمبر کو نجی ٹی وی کو  انٹرویو کے دوران انہوں نے ایک ایسا فارمولا پیش کیا جس میں انہوں نے اس تعیناتی کو انتخابات تک موخر کرنے کا اشارہ دیا۔
اگلے ہی روز صحافیوں سے ملاقات میں انہوں نے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ‘آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ انتخابات تک موخر کر دیا جائے۔‘
سابق وزیراعظم نے گزشتہ روز خطاب کیا جس میں انہوں نے موجودہ حکومت اور اپنے دور حکومت کی مہنگائی کا موازنہ کیا۔ اس خطاب کو تقریبا تمام ٹی وی چینلز نے نشر بھی کیا اور عمران خان کا ہدف تنقید بھی حکومت اور توجہ مہنگائی پر رہی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کا لب و لہجہ مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ہونی والے بیک ڈور رابطے ہیں۔
سینیئر تجزیہ نگار حبیب اکرم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان بیک ڈور رابطہ ہو رہے ہیں اور وہ کبھی رکے بھی نہیں تھے تاہم عمران خان کسی پر اعتبار نہیں کر رہے تھے لیکن اب ان کو احساس ہو گیا ہے کہ اگر آئندہ حکومت کرنی ہے تو معاملات ٹھیک کیے بغیر حکومت نہیں چل سکتی۔‘

عمران خان کی جانب سے حالیہ جلسوں میں ہدف تنقید اسٹیبلشمنٹ کے بجائے حکومت اور ان کے سیاسی حریف رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

حبیب اکرم کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی یہ احساس ہو گیا ہے کہ عمران خان پر دباؤ ڈال کر کام نہیں چل سکتا اس لیے دونوں طرف سے نرمی آئی ہے۔ 
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ ’شنید تو یہی ہے کہ صدر مملکت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطوں کا کردار ادا کر رہے ہیں اور بھی بہت سے لوگ ہیں۔ لیکن عمران خان کا موڈ کس وقت تبدیل ہو جائے اس کا بھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔‘
مجیب الرحمن شامی سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان کو اب ریلیف ملتا نظر آرہا ہے اور جو ان کے خلاف بڑھتے قدم تھے وہ اب رکے ضرور ہیں لیکن تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے محاذ آرائی نہیں ہونی چاہیے۔‘
مجیب الرحمن شامی کے بقول عمران خان لانگ مارچ کی کال نہیں دیں گے۔ ’یہ صرف دباؤ ڈالنے کا طریقہ کار ہے اگر وہ باہر نکلیں بھی تو اس کا فائدہ فی الوقت ان کو نہیں ہوگا۔‘

شیئر: