Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا عمران خان نے پی ڈی ایم قیادت کو غیر متعلق کر دیا ہے؟

سیلاب کے بعد بھی عمران خان نے بڑے شہروں میں جلسے جاری رکھے۔(فائل فوٹو: اے ایف پی)
اگرچہ پاکستان میں اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت قائم ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی تقریباً تمام اہم سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے مگر اس وقت سیاسی گفتگو کا محور سابق وزیراعظم عمران خان ہی ہیں۔
 تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان  مسلسل عوامی رابطے، جلسے، مارچ اور احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت کھونے کے پانچ ماہ بعد بھی عمران خان ہی ملک کا سیاسی ایجنڈا مرتب کر رہے ہیں اور ہر ٹاک شو اور سیاسی گفتگو کا مرکز ہیں۔
حالیہ دنوں میں سیلاب کے بعد بھی عمران خان نے اپنی سیاسی سرگرمیاں ترک نہیں کیں اور پشاور کے علاوہ بڑے شہروں میں جلسے جاری رکھے۔
دوسری طرف سے ان کے بیانیے کے مقابلے کے لیے حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے کوئی مؤثر جواب نہیں آیا۔ البتہ سیلاب زدگان کی بحالی میں وزیراعظم شہباز شریف تقریباً ہر روز ملک کے کسی نہ کسی حصے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے حکومت کے مشکل فیصلوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی نے عمران خان کی تحریک کو مضبوط کیا جبکہ دوسری طرف حکومت سیاسی محاذ پر اپنا بیانیہ مؤثر انداز میں قوم تک نہیں پہنچا پائی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’یہ بات درست ہے کہ اس وقت بیانیہ صرف عمران خان کا چل رہا ہے کیونکہ حکومت سیاسی سطح پر کوئی پہل نہیں کر پا رہی۔ حکومت کے اہم اتحادی رہنما بلاول بھٹو اور مولانا فضل کہیں نظر نہیں آ رہے۔
ان کے مطابق ملک کے لیے یہ کوئی اچھی بات نہیں اور نہ ہی سیاست کے لیے کوئی اچھی خبر ہے کہ صرف یک طرفہ بیانیہ ہی چلے۔ حکومت عوام کو اپنی بات سمجھا نہیں پا رہی۔
ڈان ٹی وی سے وابستہ تجزیہ کار عارفہ نور کا کہنا ہے کہ حکومت نہ صرف مہنگائی کو قابو کرنے میں ناکام ہو رہی ہے بلکہ اس کے پاس عوام تک بات پہنچانے کی حکمت عملی بھی نہیں ہے جس کے مقابلے میں عمران خان کی ابلاغی حکمت عملی بہت کامیاب ہے۔
عارفہ نور کے مطابق ’جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو اس وقت اپوزیشن کا موقف تھا کہ وہ نااہل ہیں اس لیے معیشت سنبھال نہیں پا رہے۔ جب ان کو حکومت ملی تو ان سے نہ معیشت سنبھلی اور نہ مہنگائی کم ہوئی تو اس کا سیاسی فائدہ عمران خان کو ہوا، پھر اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں حکومت میں آ گئیں تو اس کی وجہ سے بھی عمران خان کی مقبولیت عوام میں بڑھتی گئی کیونکہ ہر جماعت کے مقامی سطح پر مخالفین کا واحد انتخاب عمران خان ہی رہ گئے۔‘
عارفہ نور کا کہنا تھا کہ عمران خان نے نوجوانوں کو متحرک کیا اور نہ صرف لگاتار ان سے رابطہ کیا بلکہ رابطے اور ابلاغ کے جدید طریقے جیسے ٹویٹر سپیس، پوڈ کاسٹ اور ٹک ٹاک استعمال کیے۔
عارفہ نور کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’شہباز شریف عمران خان کے سیاسی حریف نہیں ان کا اصل مقابلہ نواز شریف سے ہے جو اس وقت منظرعام پر نہیں ہیں۔‘

عمران خان کو مقبولیت کے ساتھ ساتھ ناکامیاں بھی ہوئیں

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ ’اس وقت سیاست کا مرکزی کردار عمران خان ہی ہیں۔ سیاست اس وقت ان کے حامیوں اور مخالفوں میں ہی بٹی ہوئی ہے جس طرح ایک زمانے میں سیاست بھٹو کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان ہی ہوتی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے ان کی مقبولیت پر سوال اٹھے تھے۔ وہ ضمنی الیکشن ہار رہے تھے لیکن عدم اعتماد کے بعد وہ گھر نہیں بیٹھے بلکہ مسلسل جارحانہ سیاست کی، جلسے جلوس کے زریعے اپنے لوگوں کو متحرک کیا اور ملک میں ایسی صورتحال پیدا کر دی جس کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
’اس وقت کامیابی اس لحاظ سے تو نہیں ملی کہ ان کی باتیں مان لی گئی ہوں تاہم انہوں نے اپنے ووٹر اور سپورٹر کو متحرک رکھا جو ان کی بڑی کامیابی ہے۔ـ‘
مظہر عباس کے مطابق حالیہ مہینوں میں عمران خان کو کچھ ناکامیاں بھی ہوئیں جیسا کہ وہ الیکشن جلدی نہیں کروا پائے۔ دوسرا وہ خواہش کے باوجود چیف الیکشن کمشنر تبدیل نہیں کروا پائے۔

عارفہ نور کا کہنا تھا کہ ’شہباز شریف عمران خان کے سیاسی حریف نہیں ان کا اصل مقابلہ نواز شریف سے ہے۔ (فایل فوٹو: اے ایف پی)

’اب لگتا ہے کہ اب ان کی آخری کوشش ہے کہ آرمی چیف والے معاملے پر ان کی بات مان لی جائے لیکن لگ نہیں رہا کہ ان کی بات مانی جائے گی۔ اسی لیے وہ ستمبر میں کال دینے کی بات کر رہے ہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’عمران خان کی پاپولر سپورٹ اپنی جگہ موجود ہے لیکن عمران خان کو اس لحاظ سے کامیابی نہیں مل رہی کہ ان کی بات مان لی جائے۔ تاہم اگر وہ الیکشن میں جاتے ہیں چاہے وہ اس سال ہوں یا اگلے سال مارچ میں ہوں یا اکتوبر میں، یہ ضرور ہو گا کہ عمران خان کے مخالفین کے لیے انہیں ہرانا بہت مشکل ہو گا۔‘

شیئر: