Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا جنگ میں پیسہ کتنا اہم ہے؟

اس وقت پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے استعمال میں دوسری پارٹیوں سے آگے ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں سوشل میڈیا ایک بہت بڑی حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور اس حوالے سے بغیر کسی مبالغے کے تحریک انصاف کو باقی سیاسی پارٹیوں پر برتری حاصل ہے۔
اس کا ادراک نہ صرف دیگر سیاسی جماعتوں کو ہے بلکہ سیاسی مبصرین بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔
آج کل مسلم لیگ (ن) کے رہنما نجی محافل میں سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے مقابلے اپنی کم تری وجہ اس چیز کو قرار دے رہے ہیں کہ ’ہم سوشل میڈیا پر پیسہ نہیں لگا سکتے ہماری جماعت کے پاس خرچ کرنے کو پیسہ ہے ہی نہیں۔‘
بحیثیت جماعت ن لیگ کو اپنی حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہے اور سوشل میڈیا کے لیے فنڈز مختص کیے جانے چاہییں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ابوبکر عمر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا کے لیے ایک روپے کا فنڈ بھی مختص نہیں ہے۔ جو بھی لوگ کام کر رہے ہیں وہ سب رضاکارانہ طور پر کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پارٹی کے اندر اس حوالے سے ایک بڑی رائے موجود ہے جو پی ٹی آئی کو اس کی زبان اور حکمت عملی کے تحت ہی جواب دینے کی حامی ہے لیکن ہماری جماعت کے خمیر میں یہ بات نہیں کہ جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جائے۔ پارٹی قائد نواز شریف کی اس حوالے سے ہدایات واضع ہیں۔‘
کیا سوشل میڈیا پر راج کرنے کے لیے فنڈز کا نہ ہونا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ابوبکر عمر کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک فیکٹر ضرور ہے لیکن دیگر فیکٹر بھی اہم ہیں۔ میں اس بات کو اس طرح کہتا ہوں کہ ایم آئی ٹی جو دنیائے ٹیکنالوجی کی سب سے مستند یونیورسٹی ہے اس کی رپورٹ ہے کہ فیک نیوز سچ کے مقابلے کئی گنا تیزی سے پھیلتی ہے۔ اس تحقیق میں انڈیا سمیت دنیا بھر کے ممالک سے سیمپل لیے گئے، آج اگر ن لیگ فیک نیوز کا سہارا لے تو صورت حال مختلف ہو سکتی ہے۔‘

مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی ایک دوسرے پر سوشل میڈیا پر بے انتہا پیسہ خرچ کرنے کا الزام لگاتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

یہی سوال جب تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم سے کیا گیا تو چیئرمین عمران خان کے ڈیجیٹل میڈیا فوکل پرسن اظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ ’اس بات سے بڑا مذاق کوئی ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنا بیانیہ ظاہر کرنے کے لیے پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے یہ جو کہہ رہے ہیں کہ وہ پیسہ نہیں لگاتے انہوں نے ابھی حال ہی میں پیسہ لگا کے دیکھ ہی لیا۔‘
ان کے مطابق ’جس طرح ٹک ٹاکرز کے ساتھ ہوا ہے جنہوں نے پیسے لے کر ن لیگ کی کمپین کی وہ اب اس غلطی پر اپنے فالوورز سے معافی مانگ رہے ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پیسہ استعمال کر کے سوشل میڈیا پر اپنی حاکمیت بنانا اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ آج سے دو سال پہلے یہ بات کوئی کرتا تو شاید اس میں وزن ہوتا۔ اب تو بساط پلٹ چکی ہے۔ آپ کرائے کے ٹویٹ اتنے نہیں کروا سکتے کہ سوشل میڈیا کی رائے عامہ ہی آپ کے حق میں ہو جائے، اب صرف آرگینک مواد ہی چلتا ہے۔‘
سیاسی جماعتوں کے ڈیجیٹل میڈیا ونگز اور ان کی کارکردگی کی بحث اب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تھی اس وقت بھی یہ خبر مقامی میڈیا کی زینت بنتی رہی کہ مریم نواز شریف نے ایک ڈیجیٹل میڈیا ونگ کھڑا کیا ہے جس کے معاملات وہ خود دیکھتی ہیں البتہ پارٹی کی طرف سے اس کی تردید ہی ہوتی رہی۔
آج کل بھی  تحریک انصاف کی لیڈر شپ کچھ ایسے ہی الزامات لگا رہی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں بنایا گیا ڈیجیٹل میڈیا سیل پراپیگنڈے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

اظہر مشوانی کا کہا ہے کہ آپ کرائے کے ٹویٹ اتنے نہیں کروا سکتے کہ سوشل میڈیا کی رائے عامہ ہی آپ کے حق میں ہو جائے۔ (فوٹو: فری پک)

معروف صحافی اور ایک ڈیجیٹل آؤٹ لِٹ کے سربراہ رضا رومی کے خیال میں سوشل میڈیا پر برتری رکھنے یا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل کا ہونا آج بھی پہلے نمبر پر ہے اس کے بعد دوسرے فیکٹر بھی اہم ہیں۔
’میرے خیال میں سب سے زیادہ وسائل تحریک انصاف ہی سوشل میڈیا پر خرچ کر رہی ہے۔ اس بات کی تصدیق خیبر پختونخوا میں اس وقت ہوئی جب 1100 سوشل میڈیا انفلوائنسرز کے لیے مختص بجٹ کی دستاویزات سامنے آئیں۔ تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس وقت پیسے کا اہم رول ہے۔‘
رضا رومی کے مطابق ’تحریک انصاف کی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ تعداد تارکین وطن کی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو مالی طور مستحکم ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں اگر ن لیگ کو دیکھیں تو ان کی لیڈر شپ ہی سوائے مریم نواز کے ٹوئٹر پر سرگرم نہیں ہے۔ تو باقی کسی نے کیا کرنا ہے۔ جب تحریک انصاف کی ٹاپ لیڈر شپ بھی ٹوئٹر پر پوری طرح سرگرم ہے۔‘
اظہر مشوانی لیکن اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں سمجھتا ہوں ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم پر تنقید بالکل غلط بات ہے ان بیچاروں کا کوئی قصور نہیں۔‘
ان کے بقول ’وسائل اصل مسئلہ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کا بیانیہ کیا ہے؟ اور کیا آپ کے بیانیے میں جان ہے؟ اگر آپ شریف خاندان یا زرداری یا دیگر سیاسی لوگو ں کی طرف داری کریں گے جن کو عو ام مسترد کر چکے ہیں تو آ پ کا بیانیہ سوشل میڈیا پر نہیں بکے گا۔‘

شیئر: