Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈِس۔لیکسیا‘ کیا ہے؟ پاکستان میں اس کا شکار بچوں کے لیے پہلی بار قانون سازی

ڈس لیکسیا کوئی بیماری یا ذہنی معذوری نہیں بلکہ ایک عارضی مشکل ہوتی ہے۔ فائل فوٹو: پکسابے
پاکستان میں پہلی بار بچوں کی پڑھائی لکھائی میں مشکل کو دور کرنے کے لیے انقلابی قانون سازی کرتے ہوئے ’ڈِس۔لیکسیا‘ سے متعلق قانون منظور کرلیا گیا ہے۔ قانون کے تحت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں ’ڈِس۔لیکسیا‘ کا سامنا کرنے والے بچوں کے لیے خصوصی تربیتی پروگرام شروع کیا جائے گا جبکہ اساتذہ کو عالمی معیار کی تربیت دی جائے گی۔  
قانون کے تحت تمام تعلیمی اداروں میں ایسے بچوں کی مارپیٹ، ذہنی اذیت یا ہراساں کرنے پر پابندی ہوگی۔ تعلیم وتربیت کی وزارت کی پارلیمانی سیکریٹری زیب جعفر نے بل پیش کیا تھا۔  
اس بل کا نام ’ڈِس۔لیکسیا، خصوصی اقدامات ایکٹ 2022‘ ہے جسے پارلیمنٹ نے منگل کو منظور کیا۔ قانون کے تحت پاکستان میں 18 سال سے کم عمرکے بچوں کو پڑھائی لکھائی میں آنے والی مشکل سے نجات دلانے کے لیے اساتذہ کی خصوصی تربیت کی جائے گی۔ 
بل کے اغراض و مقاصد میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ایسے بچے اور بڑی عمر کے لوگ موجود ہیں جنہیں حروف کو پہچاننے، ملتے جلتے حروف اور ریاضی کے اعداد میں فرق کرنے، الفاظ، ریاضی کے سوالات اور انگریزی کے حروف کو لکھنے اور پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
یہ کوئی بیماری یا ذہنی معذوری نہیں بلکہ ایک عارضی مشکل ہوتی ہے جسے تھوڑی سی تربیت سے دور کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس مشکل کا سامنا کرنے والے افراد کی ذہانت غیرمعمولی ہوتی ہے۔ 
قانون سازی کے تحت سکول میں داخلے کے وقت بچوں کا ایک ٹیسٹ (امتحان) لیا جائے گا جس سے تصدیق ہوگی کہ بچے کو ’ڈِس۔لیکسیا‘ کی مشکل تو نہیں تاکہ ان کو پڑھائی لکھائی میں آنے والی اس مشکل کو دور کیا جا سکے۔ اس نئے قانون کے تحت تمام سکولوں میں ’ڈِس۔لیکسیا‘ کے حوالے سے مہارت رکھنے والے اساتذہ اور عملہ رکھا جائے گا۔
قانون کی منظوری کے 120 دن کے اندر متعلقہ رولز بنائے جائیں گے تاکہ اس قانون کے تحت تجویز کیے گئے خصوصی اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔’ڈِس۔لیکسیا‘ سے متعلق معلومات اور تربیت پر مبنی خصوصی تحریری مواد بھی تعلیمی اداروں کو فراہم کیا جائے گا۔ 
’ڈِس۔لیکسیا‘ کے شکار لوگوں میں دنیا کی مشہور ترین شخصیات شامل ہیں جن میں امریکی صدور، سائنسدان، کھلاڑی، فنکار اور کاروباری شخصیات بھی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ’ڈِس۔لیکسیا‘ کی مشکل کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد 20 فیصد بتائی جاتی ہے تاہم پاکستان کی تاریخ کے اس پہلے قانون کی منظوری کے بعد اب اس حوالے سے اعداد وشمار، معلومات اور بہتری کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات میسر آ سکیں گی۔ 

ڈس لیکسیا آگے بڑھنے کے جذبے کی کمی، عقل کی خرابی اور مواقع کی کمی کا مظہر نہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی

یہ امر قابل ذکر ہے کہ پارلیمانی سیکریٹری اور اس قانون کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کرنے والی زیب جعفر خود بھی ’ڈِس۔لیکسیا‘ کی مشکل کا سامنا کر چکی ہیں۔ 
ڈس لیکسیا کیا ہے؟  
یہ یونانی زبان کے دو الفاظ کا ملاپ ہے۔ ڈس (Dys) یعنی دقت یا دشواری اور لیکسیا (Lexia) یعنی لکھے لفظ، گویا یہ پڑھنے میں دشواری کی کیفیت کا نام ہے۔ اس لفظ کو متعارف کرانے کا سہرا 1884ء میں ایک جرمن ماہر امراض چشم آر برلن کو جاتا ہے۔
ہوا یوں کہ 1877ء میں جرمن نیورولوجسٹ ایڈولف کیسمنول کے پاس ایک ایسا بچہ آیا جو بظاہر بالکل نارمل تھا۔ اس کو دیکھنے میں کوئی دشواری نہ تھی، کوئی دماغی چوٹ بھی نہیں تھی مگر پھر بھی وہ حروف کو پڑھنے میں دشواری سے گزر رہا تھا۔ اس نے اس بچے کی اس کیفیت کو ورڈ بلائنڈنس (Word Blindnes) یا ’لفظوں کا اندھا پن‘ کا نام دیا۔ بعد ازاں اس کو ڈس لیکسیا کے نام سے موسوم کیا گیا۔ 
انٹرنیشنل ڈس لیکسیا ایسوسی ایشن کے مطابق ’یہ ذہنی عمل کی وہ خرابی ہے کہ جس کا سبب حیاتی کیمیائی جینیاتی مارکرز (نشانات) ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے پڑھنے لکھنے کی صلاحیت اور ذہانت کے درمیان ایک واضح خلا پیدا ہوجاتا ہے۔‘
انٹرنیشنل ڈس لیکسیا ایسوسی ایشن کی ایک جامع تعریف کے مطابق یہ اعصاب سے متعلق ایک ایسی ذہنی موروثی بے قاعدگی ہے کہ جو زبان سیکھنے کی استعداد کو متاثر کرتی ہے۔
اس کی شدت کے درجے ہوتے ہیں اور یہ زبان پڑھنے اور اظہار میں دشواری کی صورت ظاہر ہوتی ہے جس میں حروف کی صوتی ادائیگی کا عمل، ان کا پڑھنا لکھنا، ہجے کرنا، خط اور کبھی کبھار حساب کی استعداد بھی متاثر ہوتی ہے۔ ڈس لیکسیا آگے بڑھنے کے جذبے کی کمی، عقل کی خرابی اور مواقع کی کمی کا مظہر نہیں بلکہ ان تمام حالات کے ساتھ بھی پائی جا سکتی ہے۔  

شیئر: