Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوریئر کمپنی کے ملازمین کا بھیس بدل کر شہریوں کو لوٹنے والا گروہ گرفتار

پے در پے وارداتوں کے بعد پولیس گینگ کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہی ہے (فوٹو: پنجاب پولیس)
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت لاہور میں ایک ایسے گروہ کو گرفتار کیا گیا ہے جس کا طریقہ واردات کافی مختلف تھا۔
اگست میں ڈی ایچ اے فیز سکس دو افراد جو کوریئر کمپنی کے اہلکار لگ رہے تھے، بھاری بیگ کے ساتھ ایک ایک گھر کو غور سے دیکھ رہے تھے، جس سے دیکھنے والوں کو یہی لگا کہ شاید پارسل ڈیلیور کرنے کے لیے گھروں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے ایک گھر کی بیل بجائی تاہم کوئی نہیں آیا اور وہ واپس چلے گئے۔
چند گھنٹے بعد پھر لوٹے اور پھر گھر کا جائزہ لیا پھر گھنٹی بجائی اور دروازہ نہ کھلنے پر دوبارہ واپسی کی راہ لی۔
شام کو پھر پہنچے اور گھنٹی کے جواب میں دروازہ نہ کھلنے پر کسی تکنیک کی مدد سے دروازہ کھولا اور زیورات و نقدی سمیت دوسرا قیمتی سامان اٹھا کر لے گئے، اس دوران انہوں نے موٹر سائیکل پر کئی چکر لگائے اور دیکھنے والے یہی سمجھتے رہے کہ وہ پارسل کا سامان لے جا رہے ہیں۔
گھر کے مالک عاصم خان اگلے روز آئے تو گھر خالی تھا جس پر انہوں نے رپورٹ درج کرائی۔
رپورٹ میں درج کرائی جانے واردات کے انداز میں جان کر پولیس کا ماتھا ٹھنکا کیونکہ یہ اس نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں تھا۔ اس لیے اس کی تفتیش  سی آئی اے ڈیفنس کو دے دی گئی جو پہلے ہی ملتے جلتے کوئی دو درجن مقدمات کو حل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

لاہور کے مختلف علاقون میں دو درجن سے زائد وارداتیں ہو چکی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

عاصم خان نے اردو نیوز کو  بتایا کہ ’میں نے مقدمہ تو درج کروا دیا لیکن مجھے کوئی امید نہیں تھی کیونکہ مجھے پتا چلا کہ میرے ساتھ بھی وہی ہوا ہے جو پچھلے چھ مہینوں سے دو درجن سے زائد گھروں کے ساتھ ہو چکا ہے۔‘  

پولیس کا امتحان  

کیس جب سی آئی اے (کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی) کے سامنے آیا تو اس ٹیم کا امتحان شروع ہو گیا جس کو پہلے بھی اس سے ملتے جلتے کیس موصول ہو چکے تھے۔
اس گینگ کو پکڑنے کے لئے ملک تصدق حسین نامی سب انسپکٹر کی سربراہی میں سات رکنی پولیس ٹیم کام کر رہی تھی۔ پورے علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیج ، سیف سٹی کیمروں کا ریکارڈ سب اس وقت پولیس ریکارڈ روم میں پہنچ چکا تھا۔  

پولیس نے کئی سو گھنٹوں پر مشتمل سی سی وی فوٹیجز کا جائزہ لیا (فوٹو: سوشل میڈیا)

100 سے زائد کیمروں کی فوٹیج سے بھی پولیس کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ گینگ کیسے کام کرتا ہے۔
ملک تصدق حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ پوش علاقہ ہے۔ ہمیں یہ تو پتا چل گیا تھا کہ گینگ وہی ہے جو اس سے پہلے عسکری 11 اور  اور ڈی ایچ اے  کے علاقوں میں سرگرم ہے۔ طریقہ واردات بھی وہی تھا لیکن  ہمیں یہ نہیں سمجھ آرہی تھی کہ وہ سامان نکال کر کیسے لے جا تے ہیں۔ اس کے لیے تو کوئی پک اپ چاہیے ہوتی ہے اور یہیں ہم غلطی کر رہے تھے۔‘  

گینگ کی نشاندہی کیسے ہوئی؟

گھنٹوں کی فوٹیجز دیکھنے کے بعد پولیس کی توجہ موٹر سائیکل کی طرف گئی۔
ملک تصدق بتاتے ہیں کہ ’فوٹیج  دیکھتے  ہوئے میری نظر ایک موٹر سائیکل پر پڑی جو بظاہر ایک کورئیر کمپنی کی تھی اور اس پر دو افراد بیٹھے ہوئے تھے جنہوں نے کچھ سامان بھی پکڑا ہوا تھا جو کافی زیادہ تھا اور ڈیلیوری کے لیے اتنا سامان موٹر سائیکل نہیں پک اپ پر بھجوایا جاتا ہے، بہت کوشش کے بعد بھی موٹر سائیکل کا نمبر نظر نہیں آ سکا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک کیمرے میں آدھا نمبر دکھائی دیا اور یہیں سے تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ آخری ہندسہ نظر نہیں آ رہا تھا اس لیے صفر سے نو تک تمام نمبرز کی تحقیقات کی گئیں اور ایک موٹر سائیکل ٹریس ہو گئی جو حسنین نامی شخص پر تھی اور اس کی لوکیشن بھی اسی علاقے میں ابھری جہاں واردات ہوئی تھی۔
ملزم کیسے قابو آئے؟
ستمبر کے آخری ہفتے میں اچھرہ کا رہائشی حسنین موٹر سائیکل پر نکلا تو اسے مسلم ٹاؤن موڑ پر پولیس نے پکڑ لیا جس نے تھوڑی دیر میں گینگ کے دیگر ارکان کے بارے میں بتا دیا۔

ملزم کوریئر کمپنی کے اہلکاروں کا بھیس بدل کر وارداتیں کرتے تھے (فوٹو: سوشل میڈیا)

ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کا کہنا ہے کہ  ’جیسے ہی یہ موٹر سائیکل ٹریس ہوئی تو واضح ہوا کہ پہلے ہونے والی دو درجن سے زائد وارداتوں میں یہی موٹر سائیکل استعمال ہوئی لیکن اس کی نمبر پلیٹ بدل دی جاتی تھی۔ جس چیز نے مدد کی وہ اس موٹر سائیکل کی ٹینکی پر لگا وہ کپڑے کا کور تھا جس پر برفانی چیتے کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ یہ تصویر کئی وارداتوں کے بعد کی فوٹیج میں آئی۔‘
عاصم افتخار کے مطابق ’حسنین کے پاس ایئرپورٹ کا ایک کارڈ بھی تھا، کنٹونمنٹ میں سکیورٹی  سخت ہوتی ہے۔ تو یہ شخص گلے میں ایک کارڈ ڈال کر یہی شو کرتا تھا کہ وہ ایئرپورٹ  کارگو کمپنی کا ملزام ہے جو جعلی تھا۔‘
ایس پی سی آئی اے کے مطابق ’ریکی کر کے پتہ لگایا جاتا تھا کہ کس گھر کو تالہ لگا ہے اور ان کے پاس اسلحہ بھی موجود ہوتا تھا۔‘

پولیس کے مطابق ملزموں نے 27 وارداتوں کا اعتراف کیا ہے (فوٹو: پنجاب پولیس)

پولیس کے مطابق چاروں ملزمان نے اب تک 27 وارداتوں کا اعتراف کیا ہے جبکہ ان کے قبضے سے سامان بھی برآمد کیا گیا ہے۔
گھر کے مالک عاصم خان کا تقریباً تمام ہی سامان واپس مل گیا ہے جس پر وہ بہت خوش ہیں اور کہتے ہیں ’میں تو مایوس ہو چکا تھا۔‘
تفتیشی افسر ملک تصدق نے بتایا کہ ’یہ لوگ سونا بیچنے کے لیے گھر کی خواتین کا سہارا لیتے تھے۔ ان کی عمریں تیس سال تک ہیں اور یہ چاروں آئس کا نشہ کرتے ہیں۔ انہوں نے بہت سا سامان آئس ڈیلرز کو بھی کوڑیوں کے دام بیچا، اب ان کو بھی تلاش کیا جا رہا ہے۔‘
پولیس نے تفتیش مکمل کر لی ہے اور چاروں ملزموں کو جیل بھیج دیا گیا ہے جبکہ جلد ہی عدالت میں چالان پیش کر دیا جائے گا۔

شیئر: