Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل بڑا کریں، ماریہ میمن کا کالم

صرف کرکٹ ہی نہیں ہندوتوا کے حامیوں کو فنکاروں پر بھی اعتراض رہتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان اور انڈیا کرکٹ میچ ہر دفعہ اعصاب شکن تجربہ ہوتا ہے۔ مقابلہ گیند اور بیٹ کا مگر ماحول جنگ کا ہی بن جاتا ہے۔
ٹی20 ورلڈ کپ کا حالیہ میچ پاکستان کے لیے مایوسی کا سبب رہا۔ بہترین کارکردگی کے بعد آخری گیند پر جا کر ہارنا، امپائر کا متنازعہ فیصلہ اور پرانے ورلڈ کپس کی تلخ یادوں کا تازہ ہو جانا۔ ان سب کے ساتھ کچھ نیا، منفرد اور تازہ بھی نظر آیا۔  
 ایک طرف نیا تجربہ نظر آیا ہارنے اور جیتنے والوں کی فراخ دلی میں اور دوسری طرف منفرد ترین منظر تھا۔ میلبرن میں ایک لاکھ کے قریب شائقین کا دو ایسی ٹیموں کو سراہنا جو اصل میں ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنے کو بھی تیار نہیں ہوتیں اور اصل تازگی مجھے سوشل میڈیا پر شائقین کے رد عمل میں نظر آئی جہاں پر پاکستانی دل بڑا کر کے وراٹ کوہلی کی بیٹنگ کو سراہتے نظر آئے۔
آخر میں ایک لاکھ کے قریب سٹیڈیم میں موجود لوگ اور کروڑوں جنہوں نے ٹی وی پر میچ دیکھا، ایک صحت مند اور مثبت مقابلے سے لطف اندوز ہوئے۔
سوال یہ ہے کہ جب لوگ اپنا دل بڑا کر سکتے ہیں تو پھر حکومتیں کیوں نہیں؟ خصوصا انڈیا کی حکومت جہاں پر حکمران بی جے پی نے کرکٹ کو اپنی سیاست کی نظر کردیا ہے۔ کیا جو کھیل میلبرن میں نظر آیا وہ نئی دہلی یا لاہور میں بھی دیکھا جا سکتا ہے؟  
لوگوں کی بات ہو تو لوگوں کا فیصلہ تو واضح ہے اور وہ فیصلہ ہے ایسے مقابلوں کا جن میں ہار جیت تو ہوتی ہے مگر نقصان کا اندیشہ نہیں۔ پاکستانی وراٹ کوہلی کو ایکشن میں دیکھنے کے لیے بے صبری سے منتظر ہیں جنہوں نے ہمیشہ کلاس اور بڑے دل کا مظاہرہ کیا ہے۔
ان کے طرز عمل کے پاکستانی فین ہیں اور چاہتے تو ہیں کہ وہ صفر پر آؤٹ ہوں مگر ان کی کلاس کی بیٹنگ کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ انڈین شائقین بھی بابر اعظم کے سلجھے اور شاندار رویے کے مداح ہیں اور ان کو فارم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ چاہے یہ فارم ان کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ایک طرف لوگ کرکٹ کے لیے بے تاب ہیں اور دوسری طرف کھلاڑی ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ کے سامنے کارکردگی دکھانے کو بے چین ہیں تو پھر مسئلہ کہاں ہے؟  
پاکستان کی بات ہو تو پاکستان ایشیا کپ میں انڈیا سمیت تمام ٹیموں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار تھا۔ دوسری طرف مودی سرکار ہے جس کے نمائندہ جے شاہ ایشین کرکٹ کونسل میں انڈیا کی طرف سے سربراہی کر رہے ہیں۔
انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیٹے ہیں اور پاکستان انڈیا کرکٹ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ بلکہ کہنا تو چاہیے کہ اصل رکاوٹ تو مودی سرکار اور اس کی پاکستان اور انڈیا تنازعات کو لے کر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش ہے۔

اب گیند انڈین حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ بھی دل بڑا کریں (فوٹو: اے ایف پی)

ایسے وقت میں جب خطے میں امن کو اصل خطرہ صرف انڈیا کی پالیسیوں سے ہے اس وقت بی جے پی نے اندرونی سیاست میں پاکستان کو بطور ولن پیش کیا ہے۔ اب اگر پاکستان کی ٹیم انڈیا جا کر وہاں عوام میں مقبول ہو گی یا پھر انڈیا کے کھلاڑیوں کی پاکستان میں پزیرائی ہو گی تو بی جے پی کا پاکستان مخالف بیانیہ متاثر ہو گا۔  
صرف کرکٹ ہی نہیں ہندوتوا کے حامیوں کو فنکاروں پر بھی اعتراض رہتا ہے۔ عاطف اسلم سے لے کر فواد خان سمیت کئی پاکستانی سپر سٹارز کو انتہا پسندوں کے دباؤ پر چلتے ہوئے منصوبوں سے الگ کر دیا گیا۔ اس سے ان کی مقبولیت میں تو کمی نہیں آئی مگر ہندوتوا کا چہرہ ہی بے نقاب ہوا۔ یہی فنکار جب باہر پرفارم کرتے ہیں تو سب سے زیادہ انڈین ہی انہیں دیکھنے آتے ہیں۔ یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر بھی پاکستان فنکاروں کی پذیرائی سرحد پار اتنی ہی ہے جتنی اپنے ملک میں ہے۔  
کچھ عرصہ پہلے کرتار پور میں  انڈیا کے سابق کپتان بشن سنگھ بیدی اور پاکستان کے سابق کپتان انتخاب عالم کی ملاقات کی روداد بی بی سی نے کور کی۔ 50 سال سے ایک دوسرے کے حریف اور دوست اپنے خاندانوں کے ہمراہ ملے تو دونوں پر رقت طاری تھی۔ یہی لمحہ کھیل اور عوام کے تعلق کے گہرائی کا ثبوت ہے مگر یہ ملاقات بھی کرتار پور ہی میں ہوئی جو پاکستان کی فراخ دلی کا ایک ثبوت ہے ۔
پاکستان کی حکومت ہو یا عوام دونوں نے  انڈیا کی جارحانہ اور غیر منصفانہ پالیسیوں کے باوجود عام عوام کی سطح پر رابطوں کی حوصلہ افزائی ہی کی ہے۔ اب گیند انڈین حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ بھی دل بڑا کریں مگر افسوس یہ کہ اس کا امکان کم ہی ہے۔ 

شیئر: