Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحافی ارشد شریف کی میت کل پاکستان لائی جائیگی، تدفین جمعرات کو ہوگی: اہلیہ

پاکستان کے معروف اینکرپرسن ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر ہلاک کرنے کے واقعے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے کینیا کے صدر ولیم روٹو کو فون کر کے واقعے کی غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات پر زور دیا ہے۔
ارشد شریف کی ہلاکت کے خلاف پاکستان کے صحافیوں کی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنایا جائے۔
دوسری جانب پاکستان کی قومی اسمبلی اجلاس میں صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کے خلاف مذمتی قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے۔
قرارداد وفاقی وزیر شازیہ مری کی جانب سےمذمتی قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ ’ایوان ارشد شریف کےاہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہے اور قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔‘
دوسری جانب ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے پیر کو رات کو ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ ارشد شریف کی میت منگل کو پاکستان لائی جائے گی۔
جویرہ صدیق نے ٹویٹ کی کہ ’شہید ارشد شریف کا جسد خاکی کل آئے گا اور تدفین ایچ الیون قبرستان اسلام آباد میں جمعرات ہوگی۔‘
اس سے قبل پیر ہی کی صبح ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے ایک ٹویٹ میں ان کی موت کی تصدیق کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’آج میں نے ایک دوست، شوہر اور اپنا پسندیدہ صحافی کھو دیا ہے۔ پولیس کے مطابق انہیں کینیا میں گولی ماری گئی۔‘
جویریہ صدیق نے درخواست کی کہ ’براہ مہربانی ہماری نجی زندگی کا احترام کریں اور بریکنگ کے نام پر ہمارے خاندان کی تصاویر، ذاتی معلومات اور ان (ارشد شریف) کی ہسپتال سے آخری تصاویر شیئر نہ کریں۔‘
 اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری خارجہ کو ارشد شریف کی فیملی سے فوری رابطہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت عالیہ نے ارشد شریف کی میت پاکستان لانے کے اقدامات اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے منگل تک رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار کا کہنا ہے کہ ’کینیا میں پاکستانی ہائی کمیشن کینیئن حکام سے واقعے کی تفصیلات حاصل کر رہا ہے۔‘
پیر کو ارشد شریف کی ہلاکت کے بعد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور کراچی میں صحافیوں کی تنظیموں نے احتجاج کیا تو ان کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں نے اپنے تجربات بھی شیئر کیے۔ 

کراچی یونین آف جرنلسٹس کے تحت کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا (فوٹو: اردو نیوز)

کراچی یونین آف جرنلسٹس کے تحت کراچی پریس کلب کے سامنے پیر کو احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے احتجاج میں نیوز اینکر ارشد شریف کے قتل کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ 
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹ(آر اْئی یو جے) نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے میں صحافی اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے شرکت کی۔
اس موقعے پر آر آئی یو جے کے صدر شکیل احمد نے حکومت پاکستان سے صحافی ارشد شریف کا جسد خاکی فوری طور پر پاکستان لانے میں کردار ادا کرنے اور واقعے کی آزادانہ انکوائری کروانے کے لیے جوڈیشل انکوائری کروانے کا مطالبہ کیا۔
بشیر چوہدری نے ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے سے متعلق یادداشتیں شیئر کیں تو جذباتی الفاظ میں انہیں سراہا بھی۔
پاکستانی صحافی کی موت کے حوالے سے کینیا کی پولیس کی سربراہ این مکوڑی نے کہا کہ مطابق پاکستانی شہری ارشد شریف کی ہلاکت کا واقعہ 23 اکتوبر رات 10 بجے پیش آیا جس کی تحقیقات جاری ہیں۔
کینیا کے اخبار دا سٹار کے مطابق ارشد شریف کی موت نیروبی کے قریب ہائی وے پر ہوئی۔ 
اخبار نے ایک پولیس افسر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ارشد شریف کی موت پولیس کی گولی لگنے سے ہونے کی تصدیق کی اور رپورٹ کیا کہ پولیس نے اسے ’شناخت کی غلطی‘ قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک جگہ جہاں پولیس کی جانب سے ناکہ بندی کی گئی تھی وہاں پولیس کو ایک کار کا پیچھا کرنے کے لیے کال کی گئی اور یہ ویسی ہی کار تھی جس میں ارشد شریف سوار تھے۔

کینین پولیس سروس کا بیان

کینیا کی نیشنل پولیس سروس نے کہا ہے کہ ’این پی ایس کو اس بات کا علان کرتے ہوئے افسوس ہے کہ پاکستانی شہری ارشد محمد شریف ایک پولیس افسر کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔ اس حادثے کے وقت ان کے ساتھ ان کے بھائی خرم احمد بھی موجود تھے۔‘
پیر کی شام کینیا کے انسپکٹر جنرل پولیس کے دفتر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ’یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب پنجانی پولیس کو ایک چوری شدہ کار کی اطلاع ملی جو مگادی شہر کی طرف آ رہی تھی اور اس کا پیچھا کرنے والی پولیس نے مگادی پولیس کو مطلع کیا۔‘
’مگادی پولیس نے اس اطلاع پر ناکہ لگایا۔ ہلاک ہونے والے شخص کی کار ناکے پر نہیں رکی۔ اس کے بعد کار پر فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں ارشد محمد شریف شدید زخمی ہو گئے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’نیشنل پولیس سروس اس اندوہناک واقعے پر افسوس کا اظہار کرتی ہے۔ حکام اس وقت حادثے کی تحقیقات کر رہے ہیں تاکہ ضروری کارروائی کی جا سکے۔ انسپکٹر جنرل نے پولیس سروس کی طرف سے ہلاک ہونے والے کے خاندان اور دستوں سے افسوس کا اظہار کیا ہے۔‘
 
اس سے قبل کینیا کی پولیس کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’کار کو رکنے کا اشارہ کیا گیا لیکن گاڑی نہیں رکی جس کے بعد پولیس نے گاڑی کا پیچھا کیا اور فائرنگ سے پاکستانی صحافی کی موت واقع ہوگئی جبکہ ان کا ڈرائیور زخمی ہوا جسے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔‘
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ارشد شریف کی وفات پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی صحافی ارشد شریف کے قتل پر افسوس کرتے ہوئے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں ارشد شریف کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’سینیئر صحافی ارشد شریف کی کینیا میں ناگہانی وفات پر گہرا دکھ ہے اللہ تعالیٰ ارشد شریف کے درجات بلند کرے۔‘

وزیراعظم شہباز شریف کا کینیا کے صدر کو فون

پیر کی شام کو وزیراعظم آفس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وزیراعظم شہباز شریف نے جمہوریہ کینیا کے صدر ولیم روٹو کو ٹیلی فون کیا ہے اور کینیا کے صدر سے پاکستانی سینئر صحافی ارشد شریف کے جاں بحق ہونے کے واقعے پر بات کی۔‘
’وزیراعظم نے واقعے کی غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات پر زور دیا اور انہوں نے ارشد شریف کی میت کی جلد وطن واپسی کے لیے ضابطے کی کارروائی جلد مکمل کرنے کی درخواست کی ہے۔‘
’کینیا کے صدر نے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی۔‘
اس سے قبل وزیراعظم آفس ایک بیان میں بتایا گیا  تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سینئر صحافی ارشد شریف کی میت کی وطن واپسی کے لیے خارجہ اور داخلہ کی وزارتوں کو فوری اقدامات کی ہدایت کی ہے۔ 
بیان کے مطابق ’وزیراعظم نے وزارت داخلہ و خارجہ کے سیکریٹریز کو کینیا کے حکام سے رابطے میں رہنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ ’میت کی وطن واپسی کے تمام مراحل کی ذاتی طور پر نگرانی کریں۔‘
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ وہ ارشد شریف کے بہیمانہ قتل پر صدمے میں ہیں، انہوں نے سچ بولنے کی قیمت اپنی زندگی سے ادا کی ہے۔
ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں (ارشد شریف) کو ملک چھوڑنا پڑا اور بیرون ملک جا کر چھپنا پڑا لیکن انہوں نے سچ بولنے کا سلسلہ سوشل میڈیا پر جاری رکھا اور طاقتوروں کو بے نقاب کرتے رہے۔ آج پوری قوم ان کی موت پر سوگوار ہے۔‘
ایک اور ٹویٹ میں عمران خان نے مطالبہ کیا کہ ’ان (ارشد شریف) کے اپنے بیانات اور دوسرے ذرائع سے ملنے والے شواہد کی جانچ کے لیے عدالتی تحقیقات کا آغاز کیا جانا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی صحافی ارشد شریف کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
پارٹی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ارشد شریف کا قتل پاکستان کی صحافی برادری کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کے معاملے میں وزارت خارجہ کینیا کے حکام سے رابطے میں ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے سے متعلق حقائق جاننے کے لیے کینیا کی حکومت سے رابطے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیروبی میں موجود پاکستانی سفارت خانہ ارشد شریف کے معاملے میں مکمل معاونت کر رہا ہے۔
ارشد شریف پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی گرفتاری کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ طویل عرصے تک اے آر وائی نیوز سے وابستہ رہے جہاں وہ ’پاور پلے‘ کے نام سے پروگرام کرتے تھے۔
ان کے ملک سے جانے کے بعد ان کے ادارے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ارشد شریف کا ادارے سے اب کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
اے آر وائی نیوز کے سی ای او سلمان اقبال نے ایک ٹویٹ میں ارشد شریف کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے ابھی بھی یقین نہیں آرہا ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔‘
ارشد شریف کو 23 مارچ 2019 میں صحافت میں ان کی خدمات کی بنا پر صدر پاکستان سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا تھا۔

شیئر: