Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دفاعِ وطن سے کھیتی باڑی تک، 75 سالہ سعودی چچا مشیخی کی کہانی

چچا محمد علی مشیخی اناج میں سے پڑوسیوں اور غریب افراد کا حصہ بھی کرتے ہیں (فوٹو: سبق)
سعودی عرب کے علاقے عسیر کے جنوب میں واقع گاؤں المعشور میں منفرد انداز میں زندگی گزارنے والے 75 سالہ چچا محمد علی المشیخی اپنے آباء و اجداد کے پیشے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
اخبار سبق کے مطابق چچا محمد علی مشیخی کے طرز حیات کو شہر میں گزرے ان کے وقت نے تبدیل نہیں کیا۔ آج بھی ان کا ٹھکانہ ان کھیتوں کے کنارے پر بنے ایک چھپر میں ہے جہاں وہ مختلف قسم کی فصلیں اُگا کر اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔
محمد علی مشیخی نے سبق کو بتایا کہ ’وہ وطن کی خدمت کے لیے سعودی فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ انہوں نے وہاں 12 برس تک خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران وہ نجران، شرورۃ اور خمیس مشیط میں رہے اور انہوں نے جنگ میں بھی حصہ لیا۔
اس کے بعد چچا مشیخی نے اپنی عمر رسیدہ والدہ کی خدمت کی غرض سے فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی۔
’اس کے بعد میں اپنے کھیتی باڑی کے کاموں، بھیڑ بکریاں پالنے میں مصروف ہو گیا اور اب میں کافی کمزور ہو گیا ہوں۔‘

چچا مشیخی اس خطے کی آب و ہوا کے مطابق مختلف قسم کی فصلیں اگاتے ہیں (فوٹو: سبق)

انہوں نے بتایا کہ وہ اس خطے کی آب و ہوا کے مطابق مختلف قسم کی فصلیں اگاتے ہیں۔
محمد علی مشیخی موسم خزاں کو سب سے اچھا موسم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’اس موسم میں ہر طرح کے بیج بوئے جا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے ’مرجمہ، مفقاع، مصرمۃ اور محش‘ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وہ آلات ہیں جو ان کے آباء کھیتی باڑی میں استعمال کرتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اب کام کے طریقے بہت حد تک بدل چکے ہیں۔ پہلے بیج نکالنے کا کام بیلوں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ اب گاڑیاں اور مشینیں آ چکی ہیں۔

محمد علی مشیخی موسم خزاں کو سب سے اچھا موسم قرار دیتے ہیں (فوٹو:سبق)

’عانۃ‘ یعنی فصل کی کٹائی کے لیے دوستوں اور پڑوسیوں کے جمع ہونے کی روایت بھی مزدوروں کے آنے سے دم توڑ چکی ہے۔
’عانۃ‘ کے تحت جمع ہونے والے احباب اور پڑوسیوں کو صرف کھانا کھلایا جاتا تھا اور اناج میں سے کچھ تحفہ دیا جاتا تھا۔
چچا محمد علی مشیخی پرندوں اور بندروں سے بچ جانے والا اناج کو سمیٹ کر گھر لے جاتے ہیں اور اس میں سے پڑوسیوں اور غریب افراد کا حصہ بھی کرتے ہیں۔

برتن میں پتھر رکھنے کا مقصد فصل کو نقصان پہنچانے والے پرندوں کو بھگانا ہے (فوٹو: سبق)

چچا محمد علی مشیخی سے اجازت لیتے ہوئے ’سبق‘ کے نمائندے کی نگاہ پتھروں سے بھرے ایک برتن، ایک مصلے اور درخت سے لٹکی ہوئی ایک عینک پر پڑی۔
استفسار پر چچا محمد علی مشیخی نے بتایا کہ یہ پتھر فصل کو خراب کرنے والے پرندوں اور بندروں کو بھگانے کے لیے ہیں جبکہ چٹائی اور عینک اس مقام ‘صبل‘ میں ہی موجود رہتے ہیں جہاں چچا مشیخی نماز اور تلاوت قرآن میں مشغول رہتے ہیں۔

شیئر: