Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم لیگ ن کا مخمصہ: ماریہ میمن کا کالم

ن لیگ کے اندازِ سیاست نے یہ سگنل دیا ہے کہ ابھی سیاسی وراثت کا فیصلہ ہونا باقی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ن لیگ کو ملک کی ایک سینیئر سیاسی جماعت کہا جا سکتا ہے۔ کہنے کو تو ن لیگ کی طرف سے اپنے آپ کو مسلم لیگ کا تسلسل قرار دیا جائے گا مگر اس دعوے کی سنجیدگی پر وہ خود بھی شاید اصرار نہ کریں۔
ن لیگ چونکہ ن یعنی نواز شریف کی زیر قیادت ہی سیاست میں متحرک ہے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس جماعت کا 1990 سے ملکی سیاست میں کلیدی کردار رہا ہے۔
تین دہائیوں میں ن لیگ نے کئی رنگ بدلے۔ 1990 میں اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ آئی جے آئی کے ذریعے اقتدار میں آ کر نواز شریف وزیراعظم بنے اور پھر کچھ عرصے بعد “ڈکٹیشن نہیں لوں گا” کا اعلان کر کے اپنے تئیں ایک نئی طرز سیاست کی بنیاد ڈالی۔
اگرچہ ان کے خیالات اور اقدامات میں آمرانہ رنگ نمایاں رہا اور 1997 میں بھر پور کھل کر سامنے آیا۔ اس کے بعد 10 سالہ مارشل لا کے اختتام میں بذریعہ چارٹر آف ڈیموکریسی شامل ہوئے اور پھر چیف جسٹس کی بحالی پر پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلاف کر کے اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔
ن لیگ کا مکمل اقتدار کا خواب 2013 میں شرمندۂِ تعبیر ہوا اور اس وقت تک ن لیگ اور نواز شریف اپنے ووٹر بلکہ اپنے ناقدین کو بھی اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری اداروں کے بارے میں یقین دلا چکے تھے جس کا نقطۂ عروج ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے کے ساتھ سامنے آیا۔

ن لیگ کا مکمل اقتدار کا خواب 2013 میں شرمندۂِ تعبیر ہوا (فوٹو: اے ایف پی)

اس بیانیے کو ایک نیا علمبردار نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی شکل میں ملا اور ایسا لگنا شروع ہوا کہ ن لیگ اب عوامی اور مزاحمتی سیاست ہی کرے گی۔ الیکشن کے بعد دھواں دار تقریریں، جیلیں اور مارچ یہ ثابت کر رہے تھے کہ گویا ن لیگ اب نئی پیپلز پارٹی ہے اور جمہوریت اور ووٹ کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہے۔
اب اسی منظر کو فاسٹ فاورڈ کریں تو اسی سال کے شروع میں منظر یک دم بدلتا ہے اور شہباز شریف وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ ان کے حریفوں کے خلاف غداری سے لے کر کرپشن تک ہر طرح کے کیس بنتے ہیں۔
نواز شریف لندن میں چہل قدمی کرتے نظر آئے اور دوبارہ یہ لگنا شروع ہوا کہ ن لیگ ایک بار پھر ’اچھی والی‘ سیاست ہی کرے گی اور اس سیاست کا چہرہ بنے شہباز شریف جو خدمت اور مفاہمت جیسے نعروں کے ساتھ ایک  سو رکنی اتحاد کے سربراہ بن کر حکومت کر رہے ہیں۔

دھواں دار تقریریں، جیلیں اور مارچ یہ ثابت کر رہے تھے کہ گویا ن لیگ اب نئی پیپلز پارٹی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ایسا لگنا شروع ہو گیا تھا کہ ن لیگ کی سیاست اب اسی طرح مفاہمانہ اور خدمت گزاری کا رخ اختیار کرے گی کہ درمیان میں اہم تعیناتی کا دوراہا آ گیا۔ اس تعیناتی کے ساتھ ن لیگ کا ایک نیا رنگ سامنے آیا ہے یا پھر یہ پرانا رنگ تھا جو کچھ عرصے سے پھیکا پڑنے کے بعد اب ایک بار پھر ہَرا ہوا ہے۔
اس تعیناتی کے ساتھ ہی نواز شریف دوبارہ متحرک ہو گئے ہیں۔ شہباز شریف کو کئی روز لندن میں گزرانا پڑے اور واپس آ کر بھی انہوں نے چُپ سادھ رکھی ہے۔ اسحاق ڈار دوبارہ وزیر خزانہ سے بڑھ کر ڈپٹی وزیراعظم کے رول میں ہیں۔ کچھ خاص قوانین میں کچھ خاص تبدیلیوں کا بھی چرچا ہے اور ساتھ ساتھ خبریں یہ بھی کہ دونوں برادران میں اتفاق ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
پہلے تو نواز شریف کا اس تعیناتی میں کلیدی کردار ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ن لیگ میں وراثت اور نظریات دونوں پر روایتی کشمکش ابھی جاری ہے۔ ایک طرف نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ ہے اور دوسری طرف شہباز شریف کی حکمت عملی۔

ایسا لگنا شروع ہو گیا تھا کہ ن لیگ کی سیاست اب اسی طرح مفاہمانہ رخ اختیار کرے گی کہ درمیان میں اہم تعیناتی کا دوراہا آ گیا (فوٹو: اے ایف پی)

کچھ عرصہ خاموشی کے بعد ایک بار پھر اول الذکر اندازِ سیاست نے بھرپور واپسی کر کے یہ سگنل دیا ہے کہ ابھی سیاسی وراثت کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس کے بعد نواز شریف کی ترجیحات کے بارے میں جو خبریں آ رہی ہیں ان کے مطابق ن لیگ ایک بار پھر شہباز شریف کی محتاط حکمت عملی سے نواز شریف کی ’ہائی رسک سٹریٹیجی‘ کی طرف جا چکی ہے۔ 
اس نئے رنگ نے خبروں کے مطابق حکومتی اتحاد کو امتحان میں ڈال دیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے اب کون سا رنگ چلے گا مگر یہ یاد رہے کہ کوئی بھی رنگ پکا نہیں ہے۔

شیئر: