Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی حکومت کو مذاکرات کی پہلی پیش کش کتنی اہم ہے؟

پاکستان میں روایت ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی روز ہوتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے پہلی بار کھل کر حکومت کو نئے انتخابات کے حوالے سے مذاکرت کی دعوت دی ہے جسے سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے سیاسی استحکام کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی جانب سے بھی اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
جمعے کو لاہور میں پی ٹی آئی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی میٹنگ کے بعد اپنے خطاب میں عمران خان نے مرکزی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یا تو ہمارے ساتھ بیٹھیں اور بات کریں کہ عام انتخابات کب کروانے ہیں، نہیں تو پھر ہم اپنی اسمبلیاں تحلیل کریں گے۔ ہم آپ کو یہ موقع دے سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور بتائیں کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ 66 فیصد پاکستان میں الیکشن ہوں اور آپ مرکز میں بیٹھے رہیں۔
عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں اپنے احتجاج کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے تمام صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد کے بیانات میں ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی تاکہ وفاقی حکومت کو جلد انتخابات پر مجبور کیا جا سکے۔
تاہم ان کے اس اچانک اعلان نے ان کی اپنی جماعت کے ارکان کو بھی حیران کر دیا تھا اور اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزیر تعلیم شہرام ترکئی نے تسلیم کیا تھا کہ ’ہم سرپرائز ضرور ہوئے تھے۔‘ صوبائی وزیر شہرام ترکئی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں انہوں نے عمران خان کے اسمبلیوں سے نکلنے کے فیصلے پر حیرت سے انہیں دیکھا۔
عمران خان کو اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا مشورہ
عمران خان کے اس اعلان کے بعد پنجاب میں بھی سیاسی ہلچل سامنے آئی تھی اور ارکان کو تشویش پیدا ہو گئی تھی کہ اگر اسی وقت اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں تو ارکان اسمبلی کے ترقیاتی منصوبے نامکمل رہ جائیں گے جس سے انتخابات میں سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔
وزیراعلیٰ پرویز الہی نے کھلے عام تو عمران خان کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ سابق وزیراعظم جب کہیں گے وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے مگر ذرائع کے حوالے سے مقامی میڈیا سے خبریں آنا شروع ہوئیں کہ اس حوالے سے پارٹی ارکان کی متضاد آرا ہیں۔
اردو نیوز کو پارٹی کے اہم رہنما نے بتایا کہ صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعلٰی پنجاب پرویز الٰہی نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل نہ کرنے کا مشورہ دیا۔
پی ٹی آئی کے اہم ذمہ دار کے مطابق ’صدر مملکت اور پرویز الٰہی نے ایک بار پھر سے بیک ڈور مذاکرات کی کوششیں تیز کر دی ہیں، جس میں قبل از وقت انتخابات کروانے کے حوالے سے تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ڈیڈلاک کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وفاقی حکومت کا ردعمل
عمران خان کی جانب سے حکومت کو پہلی بار مذاکرات کی دعوت پر فوری طور پر وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے عام انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے اکتوبر 2023 لکھ کر ٹوئٹر پر جواب دیا مگر ان کے ساتھی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نےعمران خان کے بیان کا خیر مقدم کیا۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر وہ ساتھ بیٹھیں گے تو کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا (فوٹو: اے ایف پی)

یاد رہے کہ رانا ثنا اللہ نے پی ٹی آئی کے روالپنڈی کے احتجاج سے قبل بھی عمران خان کو عام انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب بات چیت کی جاتی ہے تو تاریخوں کے حوالے سے لچک پیدا ہو جاتی ہے۔
جمعے کو مقامی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے اپنے ردعمل میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر وہ ساتھ بیٹھیں گے تو کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔
اس سوال پر کہ حکومت الیکشن کی تاریخ دے گی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر پہلے تاریخ دے دی تو پھر مذاکرات کیسے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج عمران خان نے اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کی ہے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’اس سے قبل عمران خان کہا کرتے تھے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ میں مرجاؤں۔‘ انہوں نے کہا خدا عمران خان کو زندگی دے مل بیٹھ کر مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
اس سے قبل عمران خان کے اسمبلیاں توڑنے کے بیان پر حکومت نے کہا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں تحریک عدم اعتماد لا کر اسمبلیاں توڑنے کی کوشش کی جائے گی اور اگر اسمبلیاں ٹوٹ بھی گئیں تو صرف دو صوبوں میں الیکشن کروائے جائیں گے۔
حکومتی رہنماوں کے مطابق مرکز میں کسی صورت فوری الیکشن نہیں کروائے جائیں گے کیونکہ حکومت بجٹ پیش کر کے عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تاکہ الیکشن میں جایا جا سکے۔

عمران خان مسلسل ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے نئے انتخابات کی تاریخ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ماضی میں عمران خان کیا کہتے رہے ہیں؟
سابق وزیراعظم عمران خان کا تازہ بیان ان کے گزشتہ بیانات سے مختلف ہے۔ ماضی میں عمران خان نے متعدد مرتبہ موجودہ حکومت اور سیاسی قیادت کے ساتھ مذاکرات یا بات چیت کے امکان کو رد کیا تھا اور یہاں تک کہا تھا کہ ’ان کے ساتھ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ میں مر جاؤں۔‘
  انہوں نے لانگ مارچ کے دوران کہا تھا کہ پہلے حکومت الیکشن کی تاریخ دے اس کے بعد ہی بات چیت ہو سکتی ہے۔
جب وزیراعظم شہباز شریف کا بیان سامنے آیا کہ عمران خان نے ان سے بات چیت کے لیے رابطہ کیا تو عمران خان نے کہا کہ وہ ایسے وزیراعظم سے بات کیوں کریں گے جس کے پاس طاقت نہیں۔
تاہم عمران خان مسلسل ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے نئے انتخابات کی تاریخ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کے بعد بھی عمران خان کی جماعت نے جلد انتخابات کے لیے فوج سے کردار ادا کرنے کی بات کی تھی، تاہم کسی قسم کا ردعمل نہ آنے پر اب عمران خان نے پہلی بار سیاسی حکومت سے بات چیت کا عندیہ دیا ہے۔
اسمبلیوں سے پی ٹی آئی کے استعفوں کی صورت میں کیا ہوگا؟
اس وقت عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی پنجاب، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حکومت کر رہی ہے۔
اگر عمران خان کی صوبائی وزرائے اعلی اور ارکان سے مشاورت کے بعد  پی ٹی آئی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیاں توڑ دیتی ہے تو مرکزی حکومت کے لیے انتخابات کو دیر تک روکے رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

عمران خان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی ثابت ہو سکتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں روایت ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ ہوتے ہیں اس لیے بڑی صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کی صورت میں یا تو حکومت کو وہاں علیحدہ سے نئے انتخابات کروانے پڑیں گے یا پھر قومی اسمبلی اور باقی دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے جلد ایک ساتھ انتخابات کروانے ہوں گے۔ دونوں صورتوں میں ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا اور حکومت مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔
اس لیے سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا یہ اعلان ملک کو سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
اسمبلیاں تحلیل کرنا کتنا آسان ہے؟
اگر عمران خان اس بار اپنے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان پر عمل درآمد کی طرف پیش قدمی بھی کریں تو ان کے راستے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ تو وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی ثابت ہو سکتے ہیں۔ پرویز الہی ان کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما ہیں، تاہم وہ اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں اور پنجاب خاص کر گجرات میں ان کے حالیہ ترقیاتی کاموں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ الیکشن سے قبل اپنی حکمرانی سے سیاسی قوت میں اضافہ چاہتے ہیں۔
پرویز الہی عمران خان کے روالپنڈی کے احتجاج میں بھی شریک نہیں ہوئے اور اس سے قبل عمران خان پر حملے کے بعد ان کی مرضی کی ایف آئی ار درج کرنے میں بھی پس و پیش سے کام لیتے رہے ہیں۔
اگر پرویز الٰہی نہ مانے تو عمران خان اس پوزیشن میں نہیں کہ انہیں اسمبلیاں توڑنے پر مجبور کر سکیں۔

شیئر: