Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد میں جگہ جگہ ناکوں سے شہری پریشان، پولیس کیا کہتی ہے؟

پولیس ترجمان کے مطابق ’جو ناکے جگہ جگہ نظر آ رہے ہیں وہ ہالٹنگ پوائنٹس ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی اور فائر بندی معاہدے کے خاتمے کے بعد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک مرتبہ پھر جگہ جگہ ناکے لگا دیے گئے ہیں۔
ابتدا میں یہ ناکے شہر کے داخلی راستوں، اہم شاہراہوں اور ریڈ زون کے اطراف میں لگائے گئے تھے لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ پورا شہر ہی ناکوں سے بھر دیا گیا ہے۔
اگر آپ فیض آباد سے آ رہے ہوں اور آپ کو پاک سیکرٹریٹ یا پارلیمنٹ ہاؤس جانا ہو تو راستے میں آپ کا سب سے پہلا ناکہ فیض آباد کے مقام پر ہی ملے گا۔ ریڈ زون جانے کے تین راستے کھُلے ہیں جن میں سرینا چوک، ایوب چوک اور مارگلہ روڈ شامل ہیں۔
آپ جو راستہ مرضی چن لیں تین سے چار ناکے آپ کے منتظر ہیں۔
اسلام آباد میں جگہ جگہ لگائے گئے ناکوں کے بارے میں اسلام آباد پولیس کے ترجمان جواد تقی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ناکے 25 ہی ہیں جن پر 320 پولیس اہلکار شفٹوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں۔ جو ناکے آپ کو جگہ جگہ نظر آ رہے ہیں وہ ناکے نہیں ہیں بلکہ ہالٹنگ پوائنٹس ہیں۔ یہ ایگل سکواڈ کی جانب سے لگائے گئے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’یہ ناکے ان مقامات پر لگائے جاتے ہیں جہاں کسی مبینہ خطرے کے بارے میں اطلاع ملتی ہے۔ اس لیے مرکزی ناکے سے پہلے یا کسی بھی اہم علاقے میں داخلے سے پہلے تمام گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی سکریننگ کے لیے یہ پوائنٹس لگائے جاتے ہیں۔‘

اسلام آباد پولیس کے ترجمان جواد تقی نے بتایا کہ ’ناکے 25 ہی ہیں جن پر320 پولیس اہلکار شفٹوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں اِن ناکوں کی تعداد میں کمی لائی جائے گی اور سیف سٹی کیمروں کی کوریج کا دائرہ کار وسیع کیا جائے گا اور شہر کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ مزید بہتر بنائی جائے گی۔ 
ان راستوں پر روزانہ کی بنیاد پر سفر کرنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ بحیثیت ذمہ دار شہری بظاہر ان ناکوں سے کسی کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’لیکن جب پولیس اہلکار سڑک پر رکھے حفاظتی جنگلوں کو سِرکا کر مزید تنگ کر دیتے ہیں جہاں سے بشمکل ایک گاڑی گزرتی ہے تو پیچھے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ناکہ دہشت گردی کے ممکنہ خطرے سے نمٹںے کے بجائے کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔‘
اس حوالے سے پاک سیکرٹریٹ جانے والے شفیق احمد نے کہا کہ ’مرکزی شاہراہ پر ناکے کی تو سمجھ آتی ہے لیکن لنک روڈ اور پھر کسی بھی ٹریفک سگنل سے محض چند قدم پہلے لگائے گئے ناکے سمجھ سے باہر ہیں۔‘
شفیق احمد کا اشارہ سری نگر ہائی وے پر سرینا چوک کے سامنے بڑے سگنل سے چند قدم پہلے، سگنل اور سرینا چوک کے درمیان 50 قدم کے فاصلے کے درمیان اور پھر چوک کو بند کرکے خیابان سہروردی سے یوٹرن لے کر مُڑتے ساتھ ہی لگائے گئے ناکوں کی طرف تھا۔
صرف یہی نہیں اگر آپ ایوب چوک یعنی میریٹ ہوٹل کی طرف سے بھی ریڈ زون میں داخل ہونا چاہیں تو ایوب چوک سے 50 قدم پہلے، سپر مارکیٹ کی طرف سے آتے ہوئے بھی سگنل سے چند قدم پہلے اور پھر میریٹ ہوٹل کے کارنر پر اور شاہراہِ دستور تک آدھا کلومیٹر کے سفر میں دو مزید ناکوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
یہ تو ریڈ زون کے اطراف کی بات ہو رہی ہے۔ شہر کے دیگر علاقوں میں صورت حال مختلف نہیں ہے۔

ریڈ زون کے اندر تمام سرکاری عمارات کی سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ایک شہری محمد انور نے بتایا کہ ’میں چند روز پہلے دو تین ناکوں کے درمیان لگنے والے ٹریفک جام میں پھنس گیا۔ بچے بھی ساتھ تھے۔ اتنے میں دیکھا کہ ایک وی آئی پی سکواڈ کی گاڑیاں بھی اسی رش میں پھنسی ہوئی ہیں۔ ایسے میں خود کو بڑا غیر محفوظ تصور کیا۔ پولیس کو اس کا متبادل حل تلاش کرنا چاہیے۔‘
ریڈ زون کے اندر تمام سرکاری عمارات کی سکیورٹی اتنی سخت کر دی گئی ہے کہ اتنے حفاظتی اقدامات پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی نہیں کیے گئے تھے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں داخلے کے لیے عموماً ہر شعبے کے لیے کارڈز کا اجرا کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں سیکرٹریٹ یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے اپنے ملازمین کے علاوہ تمام سرکاری اداروں کے ملازمین روزانہ کی بنیاد پر پارلیمنٹ آتے ہیں۔
اسی طرح میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہمہ وقت پارلیمنٹ ہاؤس میں موجود ہوتے ہیں۔ ہر اجلاس کے موقع پر خصوصی پاسز جاری کیے جاتے ہیں اور اگر پاسز نہ ہوں تب بھی دفتری کارڈز دکھا کر اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔
چونکہ سیکیورٹی عملہ کم و بیش تمام صحافیوں کی چہروں سے جانتا ہے اس لیے صرف انھیں کے کارڈز چیک ہوتے ہیں جن کے چہروں سے وہ شناسا نہ ہوں لیکن موجودہ صورت حال میں پارلیمنٹ انتظامیہ کی جانب سے پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے ارکان کی ایک فہرست پارلیمنٹ کے داخلی دروازے پر رکھی گئی ہے۔
اس فہرست کے علاوہ اگر کوئی صحافی پارلیمنٹ جاتا ہے تو اسے داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اس حوالے سے پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان ملک سعید اعوان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں پارلیمنٹ انتظامیہ کی جانب سے آگاہ کیا گیا ہے کہ کچھ مبینہ دہشت گردوں نے جعلی میڈیا کارڈز پر پارلیمنٹ میں داخلے کی کوشش کی جنھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس لیے سکیورٹی کی خاطر انتہائی اقدام اٹھایا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ’ کسی بھی صحافی کو اس کے فرائض ادا کرنے سے نہیں روکا جا سکتا اس لیے ہم نے اپنی کمیونٹی کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ ہمہ وقت اپنا قومی شناختی کارڈ اور آفس کارڈ ساتھ رکھیں گے۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں جانے کے لیے کارڈ گلے میں لٹکانا ہوگا اور عملے کے ساتھ بھر پور تعاون کرتے ہوئے اپنا تعارف کروانا ہوگا۔‘
شاہراہِ دستور پر موجود دیگر اداروں کی سکیورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے جبکہ ڈی چوک اور نادرا چوک پر لگائے گئے آہنی دروازے بند کرکے ٹریفک کا داخلہ ہی بند کر دیا گیا ہے۔

شیئر: