Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد میں ریکارڈ پولیس مقابلوں کے باوجود جرائم میں اضافہ

اب تک ہونے والے پولیس مقابلوں میں چھ ڈاکو اور دو پولیس والے ہلاک ہوئے ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ تین ماہ کے دوران 14 پولیس مقابلے ہوئے ہیں جن میں چھ ڈاکو ہلاک جب کہ متعدد زخمی اور گرفتار ہوئے۔ اس دوران ڈاکووں کی فائرنگ سے چار پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ 
تین ماہ میں ہونے والے ان پولیس مقابلوں کی تعداد گذشتہ تین برس میں ہونے والے پولیس مقابلوں سے بھی زیادہ ہے۔ 
اسلام آباد کے شہریوں کے لیے گذشتہ سال کے آخری تین مہینے بالخصوص اکتوبر اور نومبر بڑے بھاری ثابت ہوئے جب ہر پوش سیکٹر میں بڑے بڑے گھروں کی ریکی کر کے ڈکیتوں نے شہریوں کو کروڑوں روپے سے محروم کر دیا۔ 
جب یہ سلسلہ حد سے بڑھا تو حکومت نے وفاقی پولیس کی کمان تبدیل کرتے ہوئے سات دسمبر کو آئی جی قاضی جمیل الرحمان کی جگہ محمد احسن یونس کو نیا آئی جی تعینات کر دیا۔ 
حکام کے مطابق اس تقرری کا بنیادی مقصد اسلام آباد میں بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنا اور ڈکیت گینگز کی سرکوبی تھا۔ آئی جی نے اپنا چارج سنبھالنے کے بعد مسلسل روزانہ کی بنیاد پر کھلی کچہریوں کا انعقاد کیا اور پولیس اہلکاروں سے مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ 
پولیس حکام کے مطابق پولیس جوانوں سے ملاقاتوں کے دوران آئی جی نے جرائم پیشہ عناصر بالخصوص ڈکیتوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا واضح پیغام دیا۔ آئی جی کی جانب سے ان واضح ہدایات کے بعد اسلام آباد میں پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
پولیس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پولیس مقابلوں کا یہ سلسلہ اس تواتر سے جاری رہا کہ تین ماہ میں اتنے پولیس مقابلے ہوئے کہ یہ تعداد گذشتہ تین سال سے بھی بڑھ گئی۔ 
اب تک ہونے والے پولیس مقابلوں میں چھ ڈاکو اور دو پولیس والے ہلاک جبکہ چار پولیس اہلکار اور متعدد ڈاکو زخمی ہوئے ہیں۔
پولیس کی جانب اس دوران غلط فہمی کے باعث بھی ہونے والی فائرنگ سے 10 ویں جماعت کا طالب علم اور اس کا ساتھی زخمی بھی ہو گیا تھا۔ 

27 جنوری کو اسلام آباد سیکٹر جی 13 میں سنیپ چیکنگ کے دوران گاڑی میں سوار ڈاکووں نے پولیس پر فائرنگ کر دی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پولیس مقابلے کب اور کہاں کہاں ہوئے؟ 

اسلام آباد پولیس کے ترجمان کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق نئے آئی جی کے چارج سنبھالنے کے بعد پہلا پولیس مقابلہ 18 دسمبر کو بحریہ ٹاون میں ہوا جس کے نتیجے میں دو مشتبہ ڈاکو ہلاک جبکہ اسلام آباد پولیس اور انسداد دہشت گردی سکواڈ کے تین جوان زخمی ہوئے۔
اس پولیس مقابلے میں مارے جانے والے ذاکر اور ارشد اسلام آباد کی چند اہم شخصیات کے گھروں میں ڈکیتیوں میں ملوث تھے۔ 
22 دسمبر کو ایگل ڈیوٹی پر تعینات اسلام آباد پولیس کے دو جوان ذاکر اور یاسر، جرائم پیشہ عناصر کی فائرنگ کی زد میں آ کر زخمی ہو گئے۔
7 جنوری کو تھانہ نون کے علاقے میں پولیس اور ڈاکووں کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں دو ڈاکو زخمی حالت میں جبکہ ان تیسرا ساتھی سرچ آپریشن کے دوران گرفتار کر لیا گیا۔ 
اسی دن ایک اور پولیس مقابلے میں تھانہ رمنا کے علاقہ سے ایک ڈاکو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔
پولیس کے مطابق ان پولیس مقابلوں میں گرفتارملزمان قتل، اقدام قتل، ڈکیتی سمیت درجنوں سنگین وارداتوں میں اشتہاری تھے۔ 
9 جنوری کو اسلام آباد کے تھانہ نون کے علاقے میں پولیس مقابلہ میں ایک ڈاکو زخمی حالت میں گرفتار ہوا۔ زخمی حالت میں گرفتار ڈاکو ملزم عزیز ڈکیتی اور راہزنی کی متعدد واردات میں ملوث تھا۔ اس نے وارداتوں کے دوران کئی شہریوں، عورتوں اور بچوں کو بھی فائر کر کے زخمی کیا تھا۔ 
 10 جنوری کو تھانہ ترنول کے علاقے میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ڈاکو ساتھی سمیت گرفتار کر لیا گیا۔
17 جنوری کو تھانہ کراچی کمپنی کے علاقہ میں دہشت گردوں کی پولیس اہلکاروں پر فائرنگ سے سے ایک پولیس اہلکار اور جوابی فائرنگ میں دو مبینہ دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ 
21 جنوری کو اسلام آباد کے تھانہ سبزی منڈی کی حدود میں پولیس اور کار لفٹرز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ جس میں ایک کار چور زخمی حالت میں گرفتار اور ایک فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ 

سات دسمبر کو محمد احسن یونس کو نیا آئی جی تعینات کر دیا گیا۔ (فائل فوٹو: اسلام آباد پولیس ٹوئٹر)

26 جنوری کو کار لفٹرز نے تھانہ آئی نائن کے علاقے میں پولیس پارٹی پر فائرنگ کی جس کے بعد کار چوری کی متعدد وارداتوں میں ملوث عادی کار لفٹر یاسر زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ 
27 جنوری کو اسلام آباد سیکٹر جی 13 میں سنیپ چیکنگ کے دوران گاڑی میں سوار ڈاکووں نے پولیس پر فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ملزم ہلاک اور ایک زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا جبکہ دو ملزمان فرار ہوگئے۔
فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہونے والا ایک ڈاکو افغان باشندہ فیض محمد تھا جو پولیس اہلکاروں پر فائرنگ، دہشت گردی، کار چوری سمیت 14مقدمات میں جیل جا چکا تھا جبکہ دوسرا زخمی ڈاکو سردار خان بھی متعدد بار جیل جا چکا ہے۔
30 جنوری کو تھانہ کورال کے علاقہ میں دوران چیکنگ موٹرسائیکل سوار ڈاکووں نے پولیس پر فائرنگ کی۔ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ڈاکو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ زخمی ڈاکو سلیم مسیح عرف ہیری ڈکیت گینگ کا اہم ملزم اور گن پوائنٹ پر ڈکیتی کی متعدد وارداتوں میں ملوث جبکہ ڈکیتی، ناجائز اسلحے کے تین مقدمات میں جیل جا چکا ہے۔ 
5 فروری کو تھانہ ترنول کے علاقہ ای 16 میں سنیپ چیکنگ کے دوران ڈاکووں نے پولیس پر فائرنگ کی. جوابی فائرنگ میں ایک ڈاکو ہلاک جبکہ ایک زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ 
7 فروری کو تھانہ کورال کی حدود میں ڈاکووں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار محمد عمران زخمی ہوگئے۔ آئی جی ہدایت پر پولیس نے ڈاکووں کے خلاف سرچ آپریشن شروع کیا اور دوبارہ آمنا سامنا ہونے پر فائرنگ کے تبادلے میں ایک ڈاکو ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔ 
12 فروری کو بھارہ کہو میں ایک پولیس مقابلے میں اسلام آباد پولیس کے سب انسپکٹر لیاقت علی ہلاک ہوگئے جبکہ ایک ڈاکو کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔ 

کیا پولیس مقابلوں سے جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے؟ 

اسلام آباد پولیس کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ڈکیتی، راہزنی، منشیات فروشی اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔
ان گرفتار افراد کی تعداد کو جمع کیا جائے تو بھی تعداد سینکڑوں میں پہنچ جاتی ہے۔ اس کے باوجود اسلام آباد میں جرائم کی شرح میں کمی دکھائی نہیں دے رہی۔ 

12 فروری کو بھارہ کہو میں ایک پولیس مقابلے میں اسلام آباد پولیس کے سب انسپکٹر لیاقت علی ہلاک ہوگئے۔ (فائل فوٹو: شٹر سٹاک)

اسلام آباد پولیس کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر مرتب کی جانے والی کرائم ڈائری کے مطابق صرف فروری 2022 کے پہلے 13 دنوں میں اوسطا 80 وارداتیں ہوئی ہیں جن میں سے ہر دوسری واردات ڈکیتی اور راہزنی کی ہے۔ 
کرائم ڈائری کے مطابق 13 دنوں میں مجموعی طور پر 1037 وارداتیں ہوئیں جن میں 101 ڈکیتی کی وارداتیں تھیں۔ اس دوران کئی افراد قتل بھی ہوئے جبکہ اقدام قتل کے کئی واقعات بھی رونما ہوئے۔
گذشتہ مہینے کے پہلے 13 دنوں میں اسلام آباد میں مجموعی طور پر جرائم کی تعداد 971 تھی جن میں سے 97 ڈکیتی کی وارداتیں تھیں۔ 

کیا پولیس مقابلے نئی پولیس انتطامیہ کی پالیسی ہے؟ 

پولیس انتظامیہ کی جانب سے اگرچہ پولیس مقابلوں کے حوالے سے فراہم کی گئی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ عموماً ڈاکووں یا دہشت گردوں کی جانب سے پولیس پر فائرنگ کی جاتی ہے جس کے بعد پولیس جانب سے جوابی فائرنگ میں ڈاکووں کی ہلاکتیں یا زخمی حالت میں گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ تاہم پولیس حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’آئی جی اسلام آباد کا کہنا ہے کہ ڈاکووں کے ساتھ قانونی طریقہ سے نمٹنا ممکن ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس طریقے سے جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘
’اس لیے ضروری ہے کہ بڑے گینگز کے سرگرم افراد کو ٹھکانے لگایا جائے اور باقیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں گرفتار کیا جائے۔‘
اس حوالے سے قانونی ماہر حسن جاوید کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے آئین کے تحت کسی بھی فرد جس پر کوئی الزام ہو، اس کو یہ حق ہے کہ اسے عدالتوں میں دفاع کا موقع دیا جائے۔ ماورائے عدالت قتل اور پولیس مقابلوں کو تہذیب یافتہ ممالک میں پذایرائی نہیں ملتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حالیہ پولیس مقابلے خاص ماحول کے بعد ہونا شروع ہوئے ہیں۔ اس میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں تو ضرورت ہے کہ ان واقعات کی تحقیقات کرائی جائیں تاہم اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے وہ تمام وسائل بروئے کار لا سکتے ہیں لیکن اس میں بھی بنیادی انسانی حقوق کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔‘

شیئر: