Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیراعلٰی پرویز الٰہی اسمبلی توڑ دیں گے؟

دیکھنا یہ ہو گا کہ چوہدری پرویز الہی اپنا حلف پورا کریں گے یا عمران خان کا بیانیہ چلے گا (فوٹو: فیس بک عمران خان)
پنجاب اسمبلی میں وزیراعلی پرویز الہی کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کے اعلان کے بعد اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ عمران خان کے اعلان کے مطابق اب اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کریں گے؟
بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب پنجاب اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس کے دوران صوبائی اسمبلی کے سپیکر سبطین خان نے گنتی مکمل ہونے کے بعد اعلان کیا کہ پرویز الہی نے 186 ووٹ حاصل کر کے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اعتماد کا ووٹ حاصل ہونے کے بعد پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق کو اہم سیاسی کامیابی تو حاصل ہوئی ہے، تاہم  صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے بحث شروع ہو گئی ہے۔
لیکن وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا دعویٰ ہے کہ چوہدری پرویز الہی نے اپنے ناراض ارکان کو حلف دیا ہے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے مگر دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رہنما فواد چوہدری کا دعویٰ ہے کہ اسمبلی جمعرات کو تحلیل کر دی جائے گی۔
 فواد چوہدری نے بدھ کی رات نجی ٹی وی  اے آر وائی سے بات کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد جمعرات کو وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اعتماد کا ووٹ لے لیا جاتا ہے تو جمعرات کو پی ٹی آئی  اپنی درخواست لاہور ہائی کورٹ سے واپس لے لے گی اور پھر اسمبلی تحلیل کی سمری بھیج دی جائے گی۔‘
دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کی کارروائی کے دوران اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’چوہدری پرویز الہی نے ناراض ارکان اسمبلی کو حلف دیا ہے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے جس کے بعد وہ ناراض ارکان واپس آئے ہیں۔‘
اب دیکھنا یہ ہو گا کہ چوہدری پرویز الہی اپنا حلف پورا کریں گے یا عمران خان کا بیانیہ چلے گا۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’ہم بھی یہ کوشش اسی لیے کر رہے تھے کہ اسمبلی توڑنے کا غیر آئینی عمل روکا جا سکے۔‘
عدالت میں اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی
عمران خان کی جانب سے پنجاب اسمبلی توڑنے کے اعلان کے بعد مرکز میں حکمران مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلی کی تحلیل روکنے کے لیے دو اقدامات کیے تھے جس کے تحت ایک طرف تو حزبِ اختلاف کی دونوں جماعتوں نے 19 دسمبر کو  وزیرِاعلٰی کے خلاف اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی اوردوسری طرف ن لیگ سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیرِاعلٰی کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا۔
تاہم مقررہ تاریخ یعنی 21 دسمبرکو اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے نے وزیراعلٰی کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ ان کی کابینہ بھی تحلیل کر دی گئی۔  

عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا (فوٹو: فیس بک عمران خان)

تاہم پی ٹی آئی کی درخواست پر 23 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو بحال تو کر دیا، لیکن اس کے لیے انہیں عدالت میں یہ تحریری بیان جمع کروانا پڑا کہ وہ بحال ہونے کے بعد اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔  
یاد رہے کہ آئین کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کو صرف ایک ہی صورت میں یعنی آرٹِیکل 112 کے تحت تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے روکا جا سکتا ہے اور وہ اپوزیشن پہلے ہی واپس لے چکی ہے۔
اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کب کب کیا ہوا تھا؟
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ’حقیقی آزادی مارچ‘ کے اختتام پر 26 نومبر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ حکومت کو عام انتخابات پر مجبور کیا جا سکے۔ اس کے بعد 17 دسمبر کوسابق وزیراعظم  نے بتایا کہ دونوں صوبائی اسمبلیاں 23 دسمبر کو تحلیل کریں گے۔
زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ سے ویڈیو خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آزادی مارچ اور دیگر جلسوں سے ان کا مقصد تھا کہ حکمرانوں کو الیکشنز کروانے پر مجبور کیا جائے۔

شیئر: