Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں مہاراجہ کشمیر کی اربوں کی ’متنازع جائیداد‘

وزارت کشمیر امور کے زیر اہتمام ان جائیدادوں کا کرایہ اب بھی مارکیٹ سے بہت کم ہے (فائل فوٹو: علی عثمان)
1947میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو اس کے اثاثے انڈیا اور پاکستان کے بیچ بانٹے گئے، ابھی تقسیم کا عمل جاری ہی تھا کہ ریاست کشمیر کا تنازع کھڑا ہو گیا اور اس کی وجہ سے ہونے والی جنگ کے نتیجے میں یہ بھی دونوں ملکوں میں تقسیم ہو گئی۔    
اس وقت مہاراجہ کشمیر اور پونچھ کی بہت سی جائیداد پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں بالخصوص صوبہ پنجاب میں تھی جس کا انتظام پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی ریاست کشمیر کے حصے کی نئی حکومت نے سنبھال لیا۔
لیکن کچھ برس بعد پاکستانی کشمیر کی اس وقت کی حکومت نے انتظامی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں موجود ان جائیدادوں کی نگرانی سے معذرت کر لی اور ان کو حکومت پاکستان کے کنٹرول میں دے دیا۔    
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ان جائیدادوں میں سے کچھ کو وقتاً فوقتاً فروخت کیا تاہم اب بھی سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان کے پاس چار ہزار 200 ایکڑ کے قریب جائیداد مختلف شہروں میں موجود ہے جو اس کے مناسب استعمال نہ ہونے کی وجہ سے بے کار پڑی ہےاور حکومت اربوں روپے کے مالی فائدے سے محروم ہو رہی ہے۔
پاکستان کی وفاقی وزارت امور کشمیر کے اس معاملے سے متعلق حکام کے مطابق گزشتہ 75 برسوں میں متعدد بار ان جائیدادوں کے نفع بخش استعمال کی کوششیں کی گئی ہیں تاہم ان کی متنازع حیثیت اور کشمیر کی ریاست اور لوگوں کی طرف سے ممکنہ احتجاج کے خدشے کے باعث اس پر کوئی واضح قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔
ان جائیدادوں کی نگرانی کرنے والے حکومت پاکستان کے ایڈمنسٹریٹر بلال کھچی نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ لاہور، راولپنڈی، شیخوپورہ، نارووال، سیالکوٹ اور جہلم سمیت کئی شہروں میں مرکزی مقامات پر بیش قیمت زرعی زمینیں اور عمارتیں موجود ہیں۔

لاہور میں 12 بازاروں کے علاوہ پرانے لاہور میں حویلی دیان سنگھ، جلو کے قریب دو ہزار 325 ایکڑ زرعی زمین بھی کشمیر پراپرٹی میں شامل ہے (فائل فوٹو: علی عثمان)

تاہم انتظامی مسائل کی وجہ سے ان کو نہ تو مناسب کرایہ پر دیا جا سکا ہے اور نہ ہی وہاں کوئی ایسی تعمیر ممکن ہوئی ہے، جو حکومت کو کوئی کمرشل فائدہ پہنچائے۔
بلال کھچی کے مطابق ’لاہور میں 12 بازاروں کے علاوہ پرانے لاہور میں حویلی دیان سنگھ، جلو کے قریب دو ہزار 325 ایکڑ زرعی زمین جس میں آٹھ گاؤں بھی شامل ہیں، شیخوپورہ میں نو سو چھ ایکڑ زرعی زمین، نارووال میں 1057 ایکڑ، سیالکوٹ میں انڈین بارڈر پر زیرو لائن کے قریب 458 ایکڑ زمین، 99 دکانیں اور 34 رہائشی یونٹس، وزیر آباد میں 17 مرلے کا پلاٹ، جہلم میں 7 کنال سے زائد کا پلاٹ، راولپنڈی صدر بازار میں پونچھ ہاؤس پلازہ، گوالمنڈی میں 66 گھر اور زمین وغیرہ شامل ہے۔‘  

منجمند حکومتی اقدامات 

لیکن بلال کھچی کے مطابق ان جائیدادوں میں سے کئی پر ناجائز قبضہ قائم ہے اور جو جائیدادیں وزارت امور کشمیر کی جانب سے کرائے پر دی گئی ہیں ان کا کرایہ بھی ماضی میں بہت کم رہا ہے اور ان جائیدادوں پر تعمیرات یا دوسرے بہتر استعمال کے لیے کوئی قابل عمل حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔
’ماضی میں یہ جائیدایں بیچی بھی جاتی رہی ہیں لیکن 1986 میں اس وقت کی حکومت نے ان کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔‘
لیکن اس کے بعد بھی ان کے بہتر استعمال کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک منصوبہ 2011-12 میں تیار کیا گیا تھا لیکن وہ بھی آگے نہیں بڑھ سکا۔ بلکہ 2016 کے بعد سے نگران ایڈمنسٹریٹر ہی تعینات نہیں ہوا۔
’2019 میں حکومت نے اس معاملے پر کچھ کام شروع کیا۔ چھ ماہ پہلے ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی ہوئی جس کے بعد ہم نے کچھ جائیدادوں کے کرائے میں اضافہ کیا اور ان کی جیو فینسنگ کے لیے ایک منصوبہ بنایا۔ اب حکومتی سطح پر ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے لیکن اس کا پہلا اجلاس ابھی تک نہیں ہو سکا۔‘ 
ان کے مطابق وزارت کشمیر امور کے زیر اہتمام ان جائیدادوں کا کرایہ اب بھی مارکیٹ سے بہت کم ہے اور اس بارے میں ایک واضح حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ 

جائیدادوں کا مالک پاکستان ہے یا کشمیر؟ 

دوسری طرف پاکستانی کشمیر کی حکومت اور سماجی حلقے سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی مرکزی حکومت کو ان جائیدادوں کے استعمال اور ان پر تعمیرات کا کوئی حق نہیں ہے۔ 

حکومت پاکستان کے ایڈمنسٹریٹر کا کہنا ہے کہ 1986 کے بعد سے کشمیر کی پراپرٹی کی خرید و فروخت روک دی گئی ہے (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

کشمیر کے سابق سینیئر بیوروکریٹ اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری فرحت علی میر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اصولی طور پر حکومت پاکستان کو ان تمام زمینوں اور عمارتوں کا انتظام اور ملکیت کشمیر کی حکومت کو واپس کرنی چاہیے۔
’حکومت پاکستان نے ان جائیدادوں کا اختیار ایوب دور میں 1961 کے ایک آرڈیننس کے ذریعے حاصل کیا تھا۔ اس کے پیچھے نظریہ تھا کہ کشمیر کی حدود مری کے قریب کوہالہ کے پل پر ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد متعدد پاکستانی حکومتوں کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا گیا لیکن کسی نے اس میں دلچسی ظاہر نہیں کی۔‘
فرحت میر نے الزام لگایا کہ پاکستانی حکومت کے اراکین نے کئی ذاتی دوستوں اور متعلقین کو فائدہ پہنچانے کے لیے ان جائیدادوں کی خرید و فروخت اور الاٹمنٹ کی ہے۔
’انہوں نے رائے ونڈ میں ریاست کشمیر کی زمین پر ایک ہاؤسنگ کالونی بھی بنائی اور اس میں کسی کشمیری شہری یا مہاجر کو کوئی پلاٹ یا گھر الاٹ نہیں کیا گیا، اور یہ سوسائٹی بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کے برعکس یہ پونچھ ہاؤس راولپنڈی میں حکومت کشمیر کے فلیٹ اور الیکشن کمیشن کے دفتر کو خالی کرنے کے متعدد نوٹسز جاری کر چکے ہیں۔‘
فرحت میر کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کی وفاقی حکومت ان جائیدادوں کے بہتر استعمال میں سنجیدہ ہے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے ایوب دور میں جاری ہونے والے آرڈیننس کو منسوخ کرکے ان کا انتظام حکومت کشمیر کو واپس کیا جائے۔ 
اس معاملے پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی اطہر مسعود وانی کے مطابق ان جائیدادوں کی غیر قانونی طریقے سے بھی خرید و فروخت ہوئی ہے۔  
تاہم حکومت پاکستان کے ایڈمنسٹریٹر کا کہنا ہے کہ 1986 کے بعد سے خرید و فروخت روک دی گئی ہے۔ 

پونچھ ہاؤس راولپنڈی میں حکومت کشمیر کے فلیٹ اور الیکشن کمیشن کے دفتر کو خالی کرنے کے متعدد نوٹسز جاری کیے جا چکے ہیں (فائل فوٹو: علی عثمان)

اطہر مسعود وانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کشمیر کی جائیدادوں کی حوالگی کے لیے سرکاری سطح پر آخری کوشش سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کے دور میں کی گئی تھی تاہم اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔‘
’حکومت پاکستان کے ایڈمنسٹریٹر کے مطابق ان تمام مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں مختلف وزارتوں کے نمائندے شامل ہیں اور اس کا پہلا اجلاس رواں سال 31 جنوری کو ہونا طے تھا لیکن یہ اجلاس منعقد نہیں ہو سکا۔ ‘
’ان جائیدادوں کے مستقبل کے متعلق مختلف منصوبے ہیں لیکن ان کے بارے میں حتمی فیصلہ اس کمیٹی کے جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جائے گا۔‘  

مہاراجہ کشمیر کی جائیدادوں کی کمرشل  قیمت کتنی ہے؟ 

  حکومت پاکستان کے ایڈمنسٹریٹر بلال کھچی کے مطابق بہت سی جائیدادیں 30 روپے ماہوار کرایہ پر لیز پر دی گئی تھیں جو اب بڑھ کر تین ہزار روپے ماہانہ ہو گیا ہے۔
’لیز کی یہ قیمت ایک من گندم کے برابر رکھی گئی تھی، تاہم اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان کرایوں میں مارکیٹ ریٹ کے مطابق اضافہ کیا جائے۔ ہم نے گذشتہ سال نومبر میں کرائے میں 3 کروڑ 25 لاکھ روپے کا اضافہ کیا ہے۔‘ 
راولپنڈی میں گذشتہ 15 سال سے زائد پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے سعید الرحمان کے مطابق راولپنڈی شہر کے رہائشی علاقوں میں صرف زمین کی قیمت 40 سے 45 لاکھ روپے جب کہ کمرشل زمین کی قیمت 55 سے 60 لاکھ روپے فی مرلہ ہے۔ اس تناسب سے صرف راولپنڈی صدر کے علاقے میں موجود پونچھ ہاؤس اور اس سے ملحقہ زمین کی قیمت کئی ارب روپے بنتی ہے۔ جب کہ لاہور اور دوسرے شہروں میں موجود کمرشل اور زرعی زمینوں کی مالیت الگ ہے۔   

شیئر: