پاکستانی سیاست میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی نئے رجحانات سامنے آ رہے ہیں۔ خاص طور سوشل میڈیا کے بہت زیادہ متحرک ہونے کے بعد سیاسی بحثوں کا رخ متعین کرنے میں بھی اس کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔
ایک اور چیز جو حالیہ برسوں میں سامنے آئی ہے، وہ ہے ویڈیو اور آڈیو لیکس کا طوفان۔ ماضی قریب میں کچھ سیاست دانوں کی مبینہ خفیہ ویڈیوز سامنے آئیں لیکن ان کی شرح خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی آڈیوز (چاہے وہ اہم شخصیات کی نجی ملاقاتوں کی گفتگو ہو یا پھر فون کالز) سے کم ہی ہے۔
مزید پڑھیں
-
سائفر آڈیو لیک،عمران خان کا طلبی کے خلاف عدالت سے رجوعNode ID: 723516
لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ جب جب آڈیوز یا ویڈیوز سامنے آتی ہیں تو کچھ لوگ انہیں جعلی قرار دیتے ہیں اور ان کے مخالفین ایسے مواد کی تحقیقات اور سزا جزا کے مطالبے دہرانے لگتے ہیں۔
کن شخصیات کی آڈیوز لِیک ہوئیں
گزشتہ دو برسوں میں درجن بھر سے زائد آڈیو لیکس سامنے آئیں۔ ان میں سابق وزیراعظم عمران خان، موجودہ وزیراعظم شہباز شریف، سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے نام شامل ہیں۔
آڈیوز کے ہنگامے میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا ذکر بھی 2022 کے اوائل میں آیا۔ ان سے منسوب آڈیو پر کافی دھول اُڑی۔ پھر جولائی 2022 میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دو آڈیو کالز سامنے آئیں۔
اگست 2022 میں سابق وزیرخزانہ شوکت ترین سے منسوب ایک آڈیو کال بھی لیک ہوئی۔ اسی طرح مسلم لیگ نواز کی چیف آرگنائزر مریم نواز کی ایک آڈیو کی بھی میڈیا پر بازگشت رہی۔
فروری 2023 میں ایک آڈیو پی ٹی آئی کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی لیک ہوئی۔ فروری 2023 میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی بھی اس حوالے سے خبروں میں رہے۔

اب منگل کو ایک تازہ آڈیو سامنے آئی ہے جس میں تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری ایک شخص کے ساتھ ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے مطلوبہ ’پارٹی ڈونیشن‘ پر بات چیت کر رہے ہیں۔
سیاسی رہنماؤں اور اہم عہدے داروں کی وقفوں وقفوں سے سامنے آنے والی آڈیوز نے پاکستانی سیاست اور رائے عامہ کو کس انداز میں متاثر کیا ہے۔ اس بارے میں اردو نیوز نے سیاسی مبصرین اور صحافیوں سے گفتگو کی ہے۔
’اصل سوال یہ ہے کہ آڈیوز ٹیپ کرنے والا کون ہے؟‘
سیاسی امور کے ماہر اور تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آڈیو ویڈیو لیکس کے معاملے میں اہم سوال تو یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں، صحافیوں اور دانشوروں کی آڈیوز بنا کون رہا ہے اور ایسا کر کون سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ آڈیوز بنانے والا کوئی عام آدمی تو ہو نہیں سکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی بعض ریاستی اداروں کے اہم عہدوں پر ہونے کی وجہ سے ایسی ٹیکنالوجی تک رسائی ہے۔‘
’اس طرح سے آڈیوز یا ویڈیوز ٹیپ کرنا شہریوں کے پرائیویسی کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہے۔‘
’ان لیکڈ آڈیوز کے اثرات اُلٹ ہوئے ہیں‘
رسول بخش رئیس نے ان آڈیوز کے مقاصد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کا مقصد سیاست اور سیاست دانوں کو گندا کر کے ان پر سے عوام کا اعتماد ختم کرنا ہے۔‘
’لیکن ان کے اثرات الٹ ہوئے ہیں۔ ایسی آڈیوز کی بنیاد پر سیاست دانوں سے الگ ہونے کی بجائے عوام نے ان ریاستی اداروں پر سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں جو مبینہ طور پر ان کاموں میں ملوث ہیں۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ ان آڈیوز کی وجہ سے عوام نے اپنی سیاسی وفاداریاں بدلی ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’آڈیو ویڈیو ٹیپ کرنے کو ہم نارمل نہیں کہہ سکتے۔ ہم نے بہرحال یہ دیکھا ہے کہ آڈیو لیک کرنے والے جو سیاسی اثرات پیدا کرنا چاہتے تھے، اس میں وہ ناکام ہوئے ہیں۔‘
’ایسی چیزیں سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ہاں بعض ایسے قانون بنائے گئے جن کا فائدہ اٹھا کر یہ آڈیو ویڈیو ٹیپنگ ہوتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ معمول کی انسانی سرگرمیوں کو سماجی طور پر جرم بنا دیا گیا ہے، اس لیے بلیک میلنگ آسان ہو گئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک کھلا راز ہے کہ ریاست جن لوگوں کو سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے، ان کے لیے چیزیں تیار رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔‘
’اندھی تقلید کرنے والوں کو فرق نہیں پڑا‘
کیا ان آڈیوز سے سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنے لیڈرز سے دور ہوئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ ‘دیکھیں ماضی میں بھٹو صاحب کے خلاف مہمیں چلیں، کچھ باتیں انہوں نے خود بھی کیں لیکن ان کی فالونگ میں فرق نہیں آیا۔ یہاں ہر ایک کو پتا ہوتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔‘
’جب لوگوں کی ذاتی زندگی سے متعلق آڈیو یا ویڈیو آتی ہے تو سیاسی و سماجی شعور رکھنے والے افراد سمجھتے ہیں کہ اگر اس میں کسی کا استحصال نہیں تو یہ زندگی کا حصہ ہے۔ دوسری جانب جو لوگ کسی رہنما کی اندھی تقلید کرتے ہیں، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
