Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کنگز پارٹی کیسے بنتی ہے؟ کون بناتا ہے؟

عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی کو توڑ کر کِنگز پارٹی بنائی جا رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان تسلسل کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھیوں کو دباؤ میں لا کر پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔  
انہوں نے منگل کی شام بھی ویڈیو لنک پر تقریر کی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی کو توڑ کر کِنگز پارٹی بنائی جا رہی ہے۔  
عمران خان کے الفاظ کچھ یوں تھے’اب تک مجھے سمجھ آئی ہے کہ یہ ایک کنگز پارٹی تیار کر رہے ہیں۔ پارٹی چھوڑنے والوں میں سے ایسے بھی ہیں جو لابی کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز کو توڑ کر کنگز پارٹی بنانے کا ڈرامہ کیا جائے۔‘  
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ اور ان کے بطن سے ’حقیقی‘، ’نظریاتی‘ اور ’پیٹریاٹ‘ کے لاحقوں کے ساتھ نئی جماعتیں سامنے آتی رہی ہیں۔  
بعض اوقات انہی سیاسی جماعتوں کے ناموں کے ساتھ بریکٹ میں کسی شخصیت کے نام کی نسبت سے حروف تہجی (ش، ف، قاف، ض، س) لکھ دیے جاتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ یہ ضروری نہیں کہ وہ کِنگر پارٹی شمار ہوں بلکہ وہ ایک سیاسی دھڑا ہی شمار ہوتی ہیں۔  

کِنگز پارٹی ہوتی کیا ہے؟  

پاکستانی سیاست کے تناظر میں جب ’کنگز پارٹی‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے تو عموماً اس سے ایسی پارٹی مراد ہوتی ہے جو کوئی ایک یا کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ملا کر کھڑی جائے۔  
عام طور پر فوجی آمروں کے ادوار میں ان کی ایماء پر بننے والی نئی پارٹیوں یا سیاسی اتحادوں کے لیے ’کنگز پارٹی‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ 
کِنگز پارٹی کو وقتی اُبھار تو مل جاتا ہے، لیکن اسے مستقل یا دیرپا سیاسی عصبیت حاصل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت کا سہارا ہٹنے یا آمر کے اقتدار سے نکلنے کے ساتھ ہی یہ پارٹی زمین بوس ہو جاتی ہے یا پھر اس قدر محدود ہو جاتی ہے کہ سیاست کی بساط پر اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں رہتی۔  

ماضی کی کِنگز پارٹیاں اور سیاسی اتحاد  

قیام پاکستان کے پہلے عشرے میں اس وقت کے صدر سکندر مرزا کے دور میں بنائی گئی ریپبلکن پارٹی کا حوالہ ملتا ہے جس کا سربراہ ڈاکٹر خان کو بنایا گیا تھا، لیکن سکندر مرزا کے اقتدار سے کُوچ کے ساتھ ہی یہ پارٹی بھی ماضی کا حصہ بن گئی تھی۔

میاں محمد اظہر کے بعد ق لیگ کی قیادت چوہدری برادران کے پاس رہی (فوٹو: اے ایف پی)

آئی جے آئی اور اس کا انجام  
سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دور کے آخری زمانے میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) سیاسی منظرنامے پر ظاہر ہوا۔ نواز شریف اس اتحاد کے سربراہ بنائے گئے تھے۔ بعد ازاں 1990ء میں الزام لگا کہ خفیہ ایجنسیوں نے اس کے لیے سیاسی رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے تھے۔ 
یہ معاملہ بعد میں ’اصغر خان کیس‘ کے نام سے بار بار زیرِ بحث آیا۔ آئی جے آئی کے نام سے بننے والے اس اتحاد کا کریڈٹ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل لیا کرتے تھے، لیکن یہ اتحاد بھی زیادہ وقت تک قائم نہیں رہ سکا تھا۔  
مسلم لیگ سے قاف لیگ تک  
بعد میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ زیرِعتاب آئی تو اسی مسلم لیگ میں سے ایک جماعت برآمد ہوئی جس کے ساتھ ’قائداعظم‘ کا لاحقہ لگایا گیا۔ اس کی سربراہی میاں محمد اظہر کو سونپی گئی۔   
مسلم لیگ ق بننے کے بعد باقی ماندہ مسلم لیگ کی سربراہی نواز شریف کر رہے تھے، اسی وجہ سے اسے مسلم لیگ ن کہا جانے لگا۔ 
میاں محمد اظہر کے بعد اس جماعت کی قیادت گجرات کے چوہدری برادران کے پاس رہی۔ پھر مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے چند برس بعد یہ بھی کمزور ہوتی چلی گئی۔ تاہم اس نے ابھی تک اپنا وجود کسی نہ کسی شکل میں برقرار رکھا ہوا ہے۔  
سنہ 2011ء میں پاکستان میں تحریک انصاف ایک بڑی پارٹی کے طور پر ابھرتی دکھائی دے رہی تھی۔ اس وقت اچانک دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور الیکٹ ایبلز نے پی ٹی آئی کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔  
ابھی کچھ عرصہ قبل سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ ایک انٹرویو میں خود یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ 2011ء میں جنرل پاشا کے کہنے پر ہماری پارٹی کے بہت سارے لوگ پی ٹی آئی میں چلے گئے تھے۔ ان کے بقول اس وقت انہوں آرمی چیف جنرل کیانی کو فون کر کے اس کی شکایت کی تھی۔  

تحریکِ انصاف اقتدار سے الگ ہونے کے بعد بھی سیاسی منظر پر موجود ہے (فوٹو: اے ایف پی)

جب ق لیگ بنی تو اس وقت کے بعض انگریزی جرائد میں ’دی رائز آف کِنگز پارٹی‘ سے ملتے جلتے عنوانات کے ساتھ تجزیاتی رپورٹس شائع کی تھیں۔
اب حالات یہ ہیں کہ وہی پرویز الہٰی اپنے بڑے بھائی کی قیادت میں چلنے والی مسلم لیگ ق چھوڑ کر خود اسی تحریک انصاف کے صدر بن چکے ہیں جس کے بارے میں وہ 2011ء میں اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ 
تحریکِ انصاف کا سیاسی اُفق پر اُبھار  
تحریکِ انصاف کے سیاسی سفر بالخصوص 2011ء سے 2018ء تک کے دورانیے میں اس جماعت میں دیگر سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر آںے والوں کی تعداد غیرمعمولی رہی۔ 
سنہ 2018ء کے الیکشن سے قبل الیکٹ ایبلز کی یکے بعد دیگرے عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ آمد اور الیکشن کے بعد آزاد حیثیت میں جیتنے والوں کی پی ٹی آئی میں شمولیت ماضی سے ذرا مختلف چیز تھی۔  
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر باقی جماعتوں کو توڑ کو نئی جماعت بنانا ہی کسی پارٹی کو ’کنگز پارٹی‘ کہنے کا معیار ہے تو تحریک انصاف کے ابھار میں بھی کہیں نہ کہیں ایسی علامتیں دکھائی دیتی ہیں۔ 
تاہم یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ماضی کی ’کنگز پارٹیاں‘ کچھ عرصے بعد کہانی بن جایا کرتی تھیں، لیکن تحریکِ انصاف اقتدار سے الگ ہونے کے ایک برس بعد بھی نہ صرف سیاسی منظر پر موجود ہے بلکہ سیاسی مباحث کا ایک نمایاں موضوع بھی بنی ہوئی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟  
چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کی طرف سے اب یہ دعویٰ کہ ’ان کی پارٹی توڑ کر نئی کِنگز پارٹی بنائی جا رہی ہے‘ ، کس حد تک درست ہے۔  
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کو عمران خان کا یہ دعویٰ کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے۔  
احمد بلال محبوب نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے عمران خان کی بات میں کافی حد تک صداقت لگتی ہے۔ امکان یہی ہے کہ ایک ایسی پارٹی بنائی جائے گی جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کو کمزور کرنے اور اس کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کا کام کر سکے۔‘  

فواد چوہدری نے کہا کہ ’25 کروڑ عوام کو نواز شریف اور زرداری کے سہارے نہیں چھوڑ سکتے۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

 کِنگز پارٹی کا چہرہ کون ہو سکتا ہے؟  
اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا کہنا تھا ’اب جو حالات بنے ہیں ان میں کئی لوگوں کو خود خیال آیا ہو گا یا پھر ایسے بھی ہوں گے جنہیں یہ ٹاسک سونپا گیا ہو گا۔ مطلب یہ کہ ایک سے زیادہ لوگ کوشش کریں گے جنہیں بعد کے نئے بندوبست میں اپنی کوشش کے مطابق حصہ ملے گا۔‘ 
اس سوال کے جواب میں کہ کیا خود پی ٹی آئی کی اپنی اٹھان کسی کِنگز پارٹی جیسی نہیں تھیِ، انہوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف اپنے آغاز میں ایک نیچرل سیاسی جماعت جیسی تھی۔ پھر ایک مرحلے پر اسٹیبلشمنٹ کو لگا کہ اس میں نواز شریف کو سیاسی مات دینے کا پوٹینشل موجود ہے اور خود عمران خان کے ساتھ بھی ایک طرح کا گلیمر کا عنصر ہے۔ یہ دیکھ کر پی ٹی آئی کی پیٹھ تھپکنے کی کوشش کی گئی تھی۔‘  
’کِنگز پارٹیاں حقیقی جماعتیں بھی بن جاتی ہیں‘  
احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ بعض اوقات کنگز پارٹیوں کے جلو میں ابھرنے والے سیاست دان اور ان کی پارٹیاں حقیقی سیاسی جماعتوں کا روپ بھی اختیار کر لیتی ہیں۔  
’پیپلز پارٹی کو دیکھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلے جنرل ایوب خان کے قریب بلکہ ان کی کابینہ میں تھے اور چند برس بعد جب انہوں نے پیپلز پارٹی قائم کی تو وہ ایک حقیقی سیاسی جماعت تھی۔ اسی طرح ہم نواز شریف کی مثال بھی ہم لے سکتے ہیں۔ وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ابھرے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی اپنی حقیقی سیاسی جماعت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔‘  
’سیاسی جماعتیں پُش بٹن سے ختم نہیں ہوتیں‘
احمد بلال محبوب کے بقول ’جہاں تک معاملہ پی ٹی آئی کا ہے تو عمران خان نے اپنے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد خود کو ٹرانسفارم کیا ہے۔ اب یہ خود عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ مستقبل میں کتنے متعلق (ریلیونٹ) رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک پُش بٹن سے ختم نہیں کی جا سکتیں۔‘  
’مجھے لگتا ہے پی ٹی آئی کی ایک حیثیت چاہے وہ کم ہی ہو، برقرار رہے گی۔ جماعتیں بنانا تو اختیار میں ہوتا ہے، لیکن انہیں منظر سے غائب کرنا آسان نہیں ہوتا۔‘  
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت اتحادی حکومت کے کچھ وزراء نو مئی کے واقعات کے تناظر میں تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے بات بھی کر رہے ہیں، لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض سیاسی رہنما ایسے بیانات پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔  
ایچ آر سی پی کو ’ریورس انجینیئرنگ‘ پر تحفظات  
ادھر اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں بدھ کو ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی چیئر پرسن حنا جیلانی نے بھی ایک پریس کانفرنس کی ہے۔  
حنا جیلانی نے کہا ہے کہ ’ایچ آر سی پی نے جس طرح 2018 کے الیکشن میں سیاسی انجینیئرنگ کی مخالفت کی تھی اسی طرح وہ اب بھی جمہوری عمل ریورس انجینیئر کرنے کے لیے اپنائے جانے والے ہتھکنڈوں پر تحفظات کا اظہار کرتا ہے۔‘  
 
انہوں نے کہا کہ ’ایچ آر سی پی سمجھتا ہے کہ حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا کوئی بھی اقدام غیر مناسب ہو گا۔‘ 
فواد چوہدری ایک بار پھر منظرعام پر  
بدھ کی شام پی ٹی آئی کے سابق رہنما فواد چوہدری نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’25 کروڑ عوام کو نواز شریف اور زرداری کے سہارے نہیں چھوڑ سکتے۔‘  
فواد چوہدری کے ساتھ عمران اسماعیل، عامر کیانی اور محمود مولوی بھی موجود تھے۔ انہوں نے یہ گفتگو اڈیالہ جیل میں قید شاہ محمود قریشی اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کی۔  
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ’پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں سے تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔ علی زیدی، پرویز خٹک، اسد عمر، فرخ حبیب اور عاطف خان سے رابطہ کیا ہے، شاہ محمود قریشی سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔‘  
اس حکومت کو اپوزیشن کے بغیر ایسے کُھلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہمارا ماننا ہے کہ پاکستان کو مستحکم حل کی طرف جانا ہے۔ ہمیں حل نکالنا ہے، حل نکالنے کی طرف جائیں گے۔‘
فواد چوہدری اور ان کے ساتھیوں کی اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے رہنماؤں سے ملاقات اور اس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو سے ابتدائی تأثر یہی مل رہا ہے کہ شاید پی ٹی آئی کا کوئی متبادل لانے پر کام ہو رہا ہے۔ 
پی ٹی آئی رہنماؤں کا ابتدائی ردعمل
تاہم بدھ ہی کی شام کو اسد قیصر، حماد اظہر، عاطف خان، فرخ حبیب، زین حسین قریشی نے اپنے اپنے ٹوئٹر پر فواد چوہدری کے برعکس موقف کا اظہار کیا۔
اسد عمر نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’فواد چوہدری سے میری کوئی بات نہیں ہوئی۔‘ فرخ حبیب نے کہا کہ ’عمران خان کے بغیر کوئی سیاست نہیں۔‘ شاہ محمود قریشی کے بیٹھے زین حسین قریشی نے کہا کہ ’اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں کے بعد جو تآثر بنایا گیا، اس کی تردید کرتا ہوں۔‘

زین الدین قریشی نے فواد چوہدری کی جانب سے دیے گئے تأثر کی تردید کی ہے (فوٹو: سکرین شاٹ)

اسی طرح حماد اظہر اور عاطف خان نے بھی حتمی فیصلے کو عمران خان پر منحصر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

شیئر: