Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں نگراں حکومت کی تشکیل کے لیے رابطے، ’اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ نہیں ہوا‘

بلوچستان اسمبلی کی 5 سالہ آئینی مدت 12 اگست کی رات کو پوری ہو رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
بلوچستان میں حکومت اور حزب اختلاف نے نگراں صوبائی حکومت کی تشکیل کے لیے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ دونوں حلقوں نے ابتدائی رابطوں میں باہمی مشاورت سے آگے بڑھنے پر اتفاق کیا ہے۔
گزشتہ شب وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے حکومت اور حزب اختلاف کے ارکان اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ کے بعد متحدہ حزب اختلاف کے اراکین سے علیحدہ ملاقات کی۔
ملاقات میں جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی موجود تھے۔
ملاقات میں موجود جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی اصغر ترین نے بتایا کہ حکومت اور حزب اختلاف نے نگراں حکومت کی تشکیل کے فیصلے باہمی مشاورت سے کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دو دن بعد ملاقات طے کی گئی ہے جس میں مشاورتی عمل کو آگے بڑھایا جائے گا اور دونوں جانب سے نام پیش کر کے ان پر غور کیا جائے گا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما رکن اسمبلی ثناء بلوچ بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے بتایا کہ اجلاس میں نگراں حکومت کے حوالے سے آئینی تقاضے پورے کرنے پر اتفاق ہوا ہے، وزیراعلیٰ اپنے اتحادی اور حزب اختلاف اپنے اتحادیوں سے مشاورت کرے گی اور اس کے بعد دونوں مل بیٹھ کر نگراں وزیراعلیٰ کے ناموں پر غور کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسمبلی کی تحلیل کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، بلوچستان اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی تاہم اس سلسلے میں ہم وفاق میں موجود اتحادیوں سے بھی مشاورت کر رہے ہیں۔‘
بلوچستان اسمبلی کی 5 سالہ آئینی مدت 12 اگست کی رات کو پوری ہو رہی ہے۔
آئین کی شق 224 کے تحت نگراں وزیراعلیٰ کا تقرر وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف  کی مشاورت سے کیا جاتا ہے۔ اگر وزیراعلیٰ یا قائد حزب اختلاف کسی نام پر متفق نہیں ہوتے تو سبکدوش اسمبلی کے حکومتی اور حزب اختلاف اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کرے گی اگر کمیٹی بھی کسی نام پر متفق نہیں ہوتی تو ان کے بھیجے گئے ناموں سے ایک کا بطور نگراں وزیراعلیٰ انتخاب کا اختیار الیکشن کمیشن کو ہوگا۔

نگراں وزیراعلٰی کے لیے وزیراعلیٰ اپنے اتحادیوں سے مشاورت کریں گے۔ فوٹو: اے پی پی

بلوچستان میں پانچ سال پہلے بھی ایسے ہی ہوا تھا۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور قائد حزب اختلاف عبدالرحیم زیارتوال اور اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی بھی کسی نام پر متفق نہیں ہوسکی تھی جس کے بعد الیکشن کمیشن نے علاؤ الدین مری کا بطور نگراں وزیراعلیٰ تقرر کیا۔
بلوچستان کی موجودہ صوبائی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ ہیں جن کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے ہے۔ سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے منحرف رکن نصر اللہ زیرے بھی حزب اختلاف کا حصہ ہیں۔
جبکہ عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں مخلوط صوبائی حکومت میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)اورجمہوری وطن پارٹی شامل ہیں۔
قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وہ کوئٹہ میں موجود نہیں تھے اس لیے وزیراعلیٰ سے ملاقات نہیں ہوسکی۔
انہوں نے کہا کہ ’اب تک باقاعدہ مشاورتی عمل شروع نہیں ہوا تاہم وزیراعلیٰ سے ہمارے اراکین کی ملاقات ہوئی جس میں مشاورتی عمل شروع کرنے کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھاکہ اب تک حکومت اور نہ ہی اپوزیشن کی جانب سے نگراں وزیراعلیٰ کے لیے کوئی نام پیش کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے کئی سینئر رہنماء خود یا اپنے قریبی رشتہ داروں کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اپنے چھوٹے بھائی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی بھی حزب اختلاف کا حصہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سینئر صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی اور ان کے بھائی رکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی، باپ پارٹی کے سینیٹر کہدہ بابر، وزیراعلیٰ کے مشیر لالہ رشید بلوچ، سابق بیورو کریٹ شبیر مینگل، منیر احمد بادینی، بلوچستان سے تعلق رکھنے والےسوڈان میں پاکستان کے سفیر بہروز ریکی سمیت مختلف نام نگراں وزیراعلیٰ کے لیے سیاسی حلقوں میں گردش کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار عرفان سعید کا کہنا ہے کہ زیادہ امکان ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف نگراں وزیراعلیٰ کے لیے ایک نام پر متفق ہو جائے کیونکہ دونوں نے ابتدائی رابطوں میں معاملے کو پارلیمانی کمیٹی یا پھر الیکشن کمیشن کے پاس نہ لے جانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور حزب اختلاف کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے درمیان رابطہ بھی ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسی کئی شخصیات موجود ہیں جو بزنجو اور مینگل سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور ایسی ہی کسی شخصیت کو ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت جمعیت علماء اسلام کو راضی کرنے کے لیے ان کی پسند کی وزارتیں دی جائیں گی۔

شیئر: