Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بی این اے کے سربراہ میڈیا کے سامنے پیش،’جنگ سے بلوچستان مزید پیچھے گیا‘

گلزار امام بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) کے بانی سربراہ تھے (فوٹو: سکرین گریب)
کالعدم تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے گرفتار سربراہ گلزار امام شمبے کو کوئٹہ میں میڈیا کے سامنے پیش کر دیا گیا اور ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 15 سال پہلے جس راستے کا انتخاب کیا وہ غلط تھا۔
ان کے بقول ’مسلح جنگ سے بلوچستان کے مسائل حل ہونے کے بجائے گھمبیر ہو رہے ہیں اور صوبے میں ترقی اور سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ کچھ مخصوص طاقتیں بلوچوں کو صرف ایک پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں۔‘
سابق عسکریت پسند نے مسلح جنگ میں شریک افراد سے اپیل کی کہ وہ واپسی کا راستہ اختیار کر کے ملک کی ترقی میں پرامن کردار ادا کریں۔
گلزار امام بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) کے بانی سربراہ تھے۔ یہ تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کے انضمام سے 2022 کے آغاز میں وجود میں آئی تھی۔ گلزار امام کی گرفتاری کی اطلاعات ستمبر 2022 میں سامنے آئی تھیں، تاہم پاک فوج نے کئی ماہ بعد رواں سال اپریل میں ان کی گرفتاری کی تصدیق کی۔
بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری شورش میں انڈین جاسوس کلبوشن جادھو کے بعد پاکستانی سکیورٹی اداروں کی یہ سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ یہ کسی بھی بلوچ مسلح تنظیم کے سربراہ کی گرفتاری اور میڈیا کے سامنے پیش کرنے کا بھی پہلا موقع ہے۔
گلزار امام عرف شمبے کو کوئٹہ کے زرغون روڈ پر واقع سول سیکریٹریٹ کے سکندر جمالی آڈیٹوریم میں میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا جہاں انہوں نے میڈیا سے مختصر بات چیت کی اور چند سوالات کے جوابات بھی دیے۔ وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو اور سینیٹر آغا عمر احمد زئی بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔
کانفرنس کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ آڈیٹوریم میں صحافیوں کو موبائل فون اور کیمرے لے جانے کی اجازت نہیں تھی اور صرف سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کے کیمرے کوریج کی گئی، تاہم صحافیوں کو سابق عسکریت پسند رہنما سے سوال کرنے کی اجازت تھی۔
پریس کانفرنس کا آغاز صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے کیا اور کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں غیر ملکی حکومتوں اور انٹیلی جنس اداروں کا ہاتھ رہا ہے جن کا مقابلہ ہماری سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اداروں نے قربانیاں دے کر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کے خلاف لڑنے والوں کا حل صرف آپریشن نہیں، کسی کو کسی بھی وجہ سے مارنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ریاست ہمیشہ بات چیت پر یقین کرتی ہے یہی بہترین حل ہے۔ قانون اور آئین کے اندر رہتے ہوئے حق مانگیں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اگر کوئی قانون کے اندر رہتے ہوئے بات چیت کے لیے آگے بڑھتا ہے تو ہم د و قدم آگے آئیں گے، لیکن ریاست کے خلاف لڑنے والوں اور لوگوں کے جان و مال سے کھیلنے والوں پر کوئی رحم نہیں ہو گا۔‘
اس کے بعد گلزار امام شمبے نے اپنے تعارف سے بات شروع کی اوراپنی عسکریت پسندانہ سرگرمیوں پر پیشمانی کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں گزشتہ 15 سالوں سے بلوچستان میں جاری مسلح تحریک کا متحرک حصہ رہا ہوں، اس شورش میں ہر طرح کے حالات سے گزرا ہوں۔ بحیثیت بلوچ میرا مقصد اپنی قومی زبان، اپنے علاقے اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔‘

گلزار امام کا کہنا تھا کہ ’ریاست کو سمجھے بغیر ہم نے اس جنگ کا آغاز کیا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’میں کچھ عرصہ قبل گرفتار ہوا۔ دوران حراست مجھے اپنے ماضی کو نئے زوایے سے دیکھنے اور پرکھنے کا اچھا موقع ملا۔ اس دوران میں نے مسلح تحریکوں کا عالمی لٹریچر کا نزدیک سے تجزیہ کیا اور میں بلوچ قومی پرامن تحریک کے اکابرین سے بھی ملا ہوں۔ جن سے بحث و مباحثے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ صرف آئینی و سیاسی طریقے سے ممکن ہے۔‘
گلزار امام کا کہنا تھا کہ ’ریاست کو سمجھے بغیر ہم نے اس جنگ کا آغاز کیا۔ میں بہت عرصہ لڑا جس سے آپ سب واقف ہیں۔ میں نے اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو کھویا۔ ایک تکلیف دہ تجربے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا وہ غلط تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مسلح جنگ سے بلوچستان کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گھبیر سے گھبیر ہوتے چلے جا رہے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ مخصوص طاقتیں بلوچ کو صرف ایک پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں۔‘
گلزار امام کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ نقصان صرف بلوچ قوم کا ہو رہا ہے، لہٰذا میں اپنی مرضی سے پیش ہو کر کہنا چاہتا ہوں کہ مسلح جنگ سے بلوچستان ترقی میں پیچھے اور پتھروں کے زمانے میں چلا گیا ہے۔ میں اپنے دوستوں سے جو مسلح جنگ میں مصروف عمل ہیں اپیل کرتا ہوں کہ وہ واپسی کا راستہ اختیار کریں تاکہ ریاست کے ساتھ بات چیت، منطق اور دلائل کے ساتھ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔‘
سابق عسکریت پسند رہنما نے کہا کہ ’لڑائی سے بلوچستان مزید پسماندگی کا شکار ہو گیا ہے اور دوسرے صوبوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ یہاں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں بلوچ طالب علموں سے بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ لڑائی میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے بلوچستان کی حقیقی ترقی میں اپنا پرامن کردار ادا کریں۔ ہمارے مسائل کا پرامن حل ممکن ہے۔ دنیا اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ دنیا میں جتنے مسائل ہوئے ہیں ان کا حل پرامن بات چیت کے ذریعے ہی نکالا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان آج جن مسائل کا شکار ہے میں سمجھتا ہوں وفاقی اورصوبائی حکومت، ریاست کے ادارے اور بلوچستان کی مسلح تنظیمیں سب اس کے ذمہ دار ہیں، لہٰذا ہمیں کئی سالوں سے جاری اس بلا سود کی لڑائی میں نقصانات کا احاطہ کرنا چاہیے۔‘
گلزار امام کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے اداروں کو بلوچستان کے مسائل کا ادراک ہے اگر آپ کا طریقہ ٹھیک ہو تو میں نے محسوس کیا کہ وہ سنتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ریاست ایک ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے ہمیں اصلاح کا موقع دے گی۔‘

گلزار امام نے کہا کہ ’میں تمام لواحقین سے معافی کا طلبگار ہوں جن کے لوگ اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

گلزار امام نے کہا کہ ’میں تمام لواحقین سے معافی کا طلبگار ہوں جن کے لوگ اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں یا مالی نقصانات ہوئے ہیں۔‘
اس موقع پر بلوچستان کی سابق ریاست قلات کے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر آغا احمد زئی نے گفتگو کی اور مذاکرات کی کوششیں تیز کرنے اور نوجوانوں کو روزگار دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم وفاقی سطح پر بھی کوششیں ک ررہے ہیں کہ ایک پالیسی دی جائے اوراس کو قانونی شکل دی جائے کہ جو لوگ آنا چاہتے ہیں اور مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ان کو موقع دیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ مفاہمتی عمل ختم نہیں ہونا چاہیے سب کے لیے مذاکرات کے د روازے اور معافی کا راستہ کھولا جائے تاکہ لوگ واپس آنا شروع ہو جائیں مگر یہ عمل قانون کے دائرے میں ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پانچ ہزار طالبعلم سالانہ گریجوٹ ہو رہے ہیں ان کے لیے روزگار پیدا کیے جائیں۔ جب تک ہم اپنے طالبعلموں اور لوگوں کے لیے راستے نہیں کھولیں گے تو اس طرح کی گمراہی ممکن ہے۔‘
ضیاء لانگو نے کہا کہ ’انسان کی جان ضائع کرنا یا قومی اثاثوں کو نقصان پہنچانا بڑی غلطی ہوتی ہے، لیکن جس طرح گلزار امام نے نیا قدم اٹھانے کی کوشش کی ہے اس کے پیش نظر پاکستان کے آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے میں بحیثیت وزیر داخلہ حکومت بلوچستان اور وزیراعلیٰ سے اپیل کرتا ہوں کہ جتنا ہوسکے ہمارے بھائی کو موقع دیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم گلزار امام کے لیے یہ موقع انہیں ذاتی زندگی میں کوئی فائدہ دینے کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کے لیے مانگ رہے ہیں۔ معاشرے میں ان کا اثر و رسوخ ہے وہ جا کر غلط راستہ چننے والے نوجوانوں کو تلقین کریں کہ وہ صحیح راستہ اختیار کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح ریاست کے حوالے سے اگر کوئی غلطیاں ہوئی ہیں ان کو اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کا موقع ملے گا۔‘
پریس کانفرنس میں مسلح تحریک کو چلانے کے لیے فنڈنگ اور غیر ملکی مدد کے حوالے سے سوال کے جواب میں گلزار امام کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں اصول ہے جہاں جنگیں ہوتی ہیں وہاں ضرور ہر ملک کے مفادات ہوتے ہیں جو تحریکیں اور جنگیں چلتی ہیں ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ اسی طرح بلوچ بھیس میں لڑی والی جنگ کے بھی اپنے مفادات ہوں گے۔ بلوچوں کے جیو پولیٹیکل حیثیت پر دنیا کی نظریں ہیں اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اس لیے بلوچوں کو کہیں نہ کہیں سے ضرور تعاون مل رہا ہو گا۔‘

گلزار امام کی نئی تنظیم نے جنوری 2022 میں لاہور کے انار کلی بازار میں دھماکے سے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

مقدمات کا سامنا کرنے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام قانونی ضابطے پورے کرنے کی کوشش کریں گے۔ مسلح تنظیموں سے وابستہ افراد کو بات چیت پر قائل کرنے سے متعلق سابق عسکریت پسند رہنما کا کہنا تھا کہ ’بات چیت کے لیے میری سوچ یہی ہے کہ رابطے کی کوشش کروں گا تاکہ جو دوست وہاں بیٹھے ہیں وہ واپسی کا راستہ انتخاب کریں اور ہم بلوچستان کی حقیقی ترقی میں مل کر اپنا کردار ادا کریں۔‘
ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ کی نظر میں بلوچستان کے بنیادی مسائل کیا ہیں جس کی وجہ سے لوگ اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس پر گلزار امام نے بے روزگاری، لاپتہ افراد اور صوبے میں سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کو بڑی وجوہات قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں بے روزگاری بلوچستان کا بڑا مسئلہ ہے یہاں وسائل ہونے کے باوجود بے روزگاری ہے۔ اسی طرح لاپتہ افراد ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ اسی طرح میں سرکاری ٹھیکیدار رہا ہوں میں نے محکمہ بلدیات میں ٹھیکیداری کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان میں فنڈز کا درست استعمال نہیں ہو رہا۔‘
ایک سوال پر گلزار امام کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کی شورش کی سیاسی تاریخ رہی ہے جس سے سب واقف ہے (بلوچستان کے لوگوں کے) تحفظات تو ہیں کمزوریاں دونوں جانب سے بہت زیادہ ہیں، لیکن کم سے کم ایک سال تک میں یہاں (حراست میں ) رہا ہوں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ ریاست کی جانب سے ان تحفظات کو دور کرنے کی سنجیدگی ہے۔‘
مسلح جنگ میں کیا کیا کھویا؟ اس پر گلزار امام کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے عزیز و قارب دوستوں کو کھویا۔ انہوں نے کہا کہ ’آج بھی جو اس جنگ میں شریک ہیں ان سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے ہمسائیہ ممالک کو بھی دیکھیں جن کے اپنے مفادات ہیں جو ہمیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘
اس دوران وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے مداخلت کی اور یہ کہہ کر پریس کانفرنس ختم کردی کہ ’آپ بہت زیادہ سوالات پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے انہیں عدالت میں بھی پیش کرنا ہے۔‘
گلزار امام کون ہیں؟
گلزار امام کا تعلق بلوچستان کے مکران ڈویژن کے ضلع پنجگور میں ایران سرحد سے ملحقہ علاقے پروم سے ہے۔ انہوں نے 2002 میں طلبہ سیاست کا آغاز کیا۔ پہلے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (امان) اور پھر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد ) کا حصہ بنے۔

کالعدم بلوچ مسلح تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی نے اپنی تنظیم کے سربراہ گلزار امام کی گرفتاری کی تصدیق نومبر 2022 میں کی (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے 2008 میں براہمداغ بگٹی کی پارٹی بلوچ ری پبلکن پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پھر 2009 سے مسلح تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے ) کا حصہ بنے۔ گلزار امام پنجگور اور مکران ریجن میں اس تنظیم کے کمانڈر تھے۔ وہ 2018 تک بی آر اے میں براہمداغ بگٹی کے نائب کے طور پر فرائض نبھا رہے تھے۔ اس کے بعد براہمداغ بگٹی سے پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں پر اختلاف کے بعد گلزار امام نے بی آر اے میں الگ دھڑا بنایا۔
جنوری 2022 میں انہوں نے بلوچ ری پبلکن آرمی کے دھڑے کو یونائیٹڈ بلوچ آرمی سے الگ ہونے والے ایک دوسرے دھڑے کے ساتھ مل کر بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے نام سے نئی تنظیم بنائی اور پھر اپنی اس نئی تنظیم کے ساتھ بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے ساتھ مل کر بلوچ مسلح تنظیموں کا اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کی تشکیل میں اہم کردارا دا کیا۔
پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے مطابق گلزار امام ’براس‘ کے آپریشنل سربراہ بھی رہے ہیں جس نے بلوچستان میں مل کر کئی بڑے اور مہلک حملے کیے۔ فوجی ترجمان نے ان کی گرفتاری کے وقت اپنے بیان میں بتایا تھا کہ ’گلزار امام کے افغانستان اور انڈیا کے دوروں کا ریکارڈ موجود ہے۔‘
گلزار امام کی نئی تنظیم نے جنوری 2022 میں لاہور کے انار کلی بازار میں دھماکے سے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ اس دھماکے میں تین افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گلزار امام کے ایک بھائی ناصر امام بھی فعال عسکریت پسند اور بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کا حصہ تھے جو رواں سال کے آغاز میں پنجگور میں ایف سی کے کیمپ پر ہونے والے حملوں میں مارے گئے۔
کالعدم بلوچ مسلح تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی نے اپنی تنظیم کے سربراہ گلزار امام کی گرفتاری کی تصدیق نومبر 2022 میں کی تھی۔ گلزار امام کی گرفتاری کی اطلاعات پہلی مرتبہ ستمبر 2022 میں سامنے آئی تھیں۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق گلزار امام کو ایران سے ترکی پہنچنے پر گرفتار کیا گیا تھا اور بعد ازاں پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا، تاہم پاکستانی فوج نے کبھی ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی۔
گلزار امام کی گرفتاری اور بیان کی اہمیت
تجزیہ کاروں کے نزدیک گلزار امام کی گرفتاری بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ تجزیہ کار سلیم صافی نے جیو ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’گلزار امام کو جس طریقے سے گرفتار کیا گیا یہ کلبوشن جادھو کی گرفتاری کے بعد آئی ایس آئی کی سب بڑی کامیابی قرار دی جاتی ہے۔‘
ان کے بقول ’گلزار امام میدان کے آدمی تھے وہ نوجوانوں کو فیلڈ میں جا کر لڑاتے تھے۔ خوش آئند بات ہے کہ ریاست نے فیصلہ کیا ہے ان کو لاپتہ کرنے، مارنے یا انتقام لینے کے بجائے معاف کیا جائے اور قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ انہیں موقع دیا گیا کہ وہ خود بھی اپنی اصلاح کریں اور دوسروں کو بھی ان کی تلقین کریں۔‘
سلیم صافی کے مطابق ’عسکریت پسند اپنے ماضی کے حوالے سے ایک جگہ پھنس گئے ہیں اور ریاست اپنی جگہ پھنس گئی ہے۔ اب ریاست کی جانب سے موقع دینا اچھی بات ہے۔ اس سے باقی عسکریت پسندوں کو اچھا پیغام جائے گا۔ گلزار امام شمبے کی جانب سے بھی یہ اچھا فیصلہ ہے کہ انہوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے سیاسی محاذ پر بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گلزار امام اس سے پہلے ٹھیکیدار تھے۔ حافظ قرآن تھے، پڑھے لکھے آدمی تھے ان کا دوسرے لوگوں کو عسکریت پسندی کی جانب راغب کرنے میں بڑا کردار رہا ہے۔‘
سلیم صافی کے مطابق ’ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ زندہ رہے اور پرآسائش زندگی گزارے۔ بلوچستان میں لوگوں کی عسکریت پسندی کی جانب جانے کی وجہ ریاست کی غلطیاں اور صوبے کی محرومیاں ہیں۔ ریاست کو سوچنا چاہیے کہ لوگ اس جانب کیوں گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عسکریت پسندی چاہے وہ کوئی بھی ہو دائمی حل صرف فوجی آپریشن نہیں ہیں۔ ریاست کو محرومیاں دور کرنا ہوں گی یہ یقینی بنانا ہو گا کہ لوگ اس جانب نہ جائیں۔‘

شیئر: