Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیفا ویمنز فٹ بال ورلڈ کپ: تاریخ میں پہلی مرتبہ فلسطینی خاتون ریفری بھی شامل

ہیبا سعدیہ کا کہنا ہے کہ ’میں ورلڈ کپ میں پہلی فلسطینی ریفری ہونے پر فخر محسوس کر رہی ہوں‘ (فائل فوٹو: اے ایف سی)
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں جاری فیفا ویمنز فٹ بال ورلڈ کپ میں تاریخ میں پہلی مرتبہ فلسطین سے تعلق رکھنے والی خاتون ریفری کو میگا ایونٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
ویب سائٹ دی نیو عرب کے مطابق 34 برس کی ہیبا سعدیہ 20 جولائی سے شروع ہونے والے فیفا ویمنز فٹ بال ورلڈ کپ میں فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
ہبا سعدیہ نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ورلڈ کپ میں پہلی فلسطینی ریفری ہونے پر فخر محسوس کر رہی ہوں۔‘
’اس سے مجھ پر ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے اور مجھے امید ہے اس سے مزید فلسطینی ریفریز چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین، اُن کے لیے مستقبل میں دروازے کھل جائیں گے۔‘
ہبا سعدیہ کی پیدائش فلسطینی جوڑے کے ہاں ہوئی تھی لیکن وہ شام میں پلی بڑھی ہیں۔ انہوں نے دمشق کی یونیورسٹی سے فزیکل ایجوکیشن میں تعلیم حاصل کی ہے۔
انہوں نے بطور ریفری اپنے کیریئر کا آغاز شام ہی سے کیا جہاں وہ ریفریز کی کمیٹی میں شامل ہوئیں اور شام کی لیگ میچز کے دوران وہ چوتھی آفیشل کے طور پر فرائض انجام دیتی رہیں، تاہم 2012 میں شام میں جنگ کے باعث انہیں ملائیشیا آنا پڑا۔
اس کے بعد ہبا سعدیہ نے ملائیشیا میں نیشنل فٹ بال ایسوسی ایشنز ریفری پروگرام میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد وہ یورپی ملک سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم چلی گئیں۔

فیفا ویمنز فٹ بال ورلڈ کپ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں کھیلا جا رہا ہے (فائل فوٹو: فیفا)

سویڈن میں انہوں نے سویڈش فٹ بال ایسوسی ایشن کے تیسرے لیول کے ڈویژن ون میں بطور ریفری کام کرنا شروع کیا اور فیفا ریفری کے لائسنس کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کر دی جس کے بعد انہیں 2016 میں انٹرنیشنل ریفرینگ بیج دیا گیا۔
خیال رہے کہ ہیبا سعدیہ ریفرینگ بیج ملنے کے بعد وہ دی ایشیئن فٹ بال کنفیڈریشن کپ، اولمپکس کوالیفیکیشن میچز اور ویمنز ورلڈ کپ کوالیفائرز میں بطور ریفری خدمات فراہم کر چکی ہیں۔

شیئر: