Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں 13 سالہ ارسلان نسیم کیس کے حقائق کیا ہیں؟

وکیل رانا انتظار کا کہنا ہے کہ پولیس نے ارسلان نسیم کے خاندان کو بلا وجہ ہراساں کیا ہے۔ (فائل فوٹو)
14 اگست سے سوشل میڈیا پر کچھ صحافی اور یوٹیوبر ایک واقعے کی تفصیل شیئر کر رہے ہیں جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ لاہور میں ایک 13 سالہ بچے ارسلان نسیم کو ضمانت کے باوجود پولیس نے دوبارہ گرفتار کرنے کی کوشش کی ہے۔
گھر سے بچہ برآمد نہ ہونے پر اس کے والد کو حراست میں لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر دی جانے والی خبر کے مطابق ان کے والد محمد نسیم کو پولیس نے مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ہارٹ اٹیک سے ان کی موت واقع ہو گئی تاہم پولیس نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ارسلان کے والد کی تشدد سے ہلاکت نہیں ہوئی اور اس حوالے سے خبروں کو حقائق کے منافی اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔
ارسلان نسیم گلبرگ ٹو میں واقع اتحاد کالونی میں رہتے ہیں۔ ان کے والد محمد نسیم سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرتے تھے جبکہ ارسلان خود پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔

واقعہ ہے کیا؟

پولیس اور عدالتی ریکارڈ کے مطابق ارسلان نسیم جن کی عمر 13 سال ہے ان کو پولیس نے 21 جون کو لاہور کے علاقے گلبرگ سے حراست میں لیا۔ اس کے بعد ان کو عسکری ٹاور حملہ کیس میں نامزد بھی کر دیا۔ پہلے شناخت پریڈ اور بعد ازاں جسمانی ریمانڈ پورا کرنے کے بعد انہیں جیل بھیج دیا گیا۔
عدالت میں پراسیکیوشن کی طرف سے دیے گئے بیان کے مطابق ارسلان نسیم کے موبائل فون سے ایسا مواد نکلا ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث تھے۔
دوسری طرف ارسلان نسیم کی ضمانت کے لیے لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر رانا انتظار نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ان کا دفاع کیا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے رانا انتظار نے بتایا کہ ’میں نے یہ مقدمہ مفت لڑا کیونکہ میرے علم میں بات آئی تھی کہ یہ بچہ ان معاملات میں ملوث نہیں ہے۔ ہم نے عدالت میں یہ بات بھی ثابت کی کہ ارسلان کی عمر بہت کم ہے اوراس کا ٹرائل بھی بچوں کے لیے بنائی گئی عدالت میں کیا جائے۔ کم عمری ثابت ہونے پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 اگست کو ان کی ضمانت منظور کر کے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔‘

رانا انتظار بتاتے ہیں کہ ’جس دن ارسلان کی رہائی ہوئی تو وہ اپنے گھر جانے کے بجائے کہیں اور چلے گئے جس کے بعد اسی شام پولیس نے ان کے گھر چھاپا مارا۔ ارسلان کے گھر پر نہ ہونے کے سبب انہوں نے اہل خانہ کو کہا کہ اسے ہر صورت پیش کیا جائے۔ اگلے روز دس اگست کو دوبارہ ان کے گھر ریڈ کی گئی اور توڑ پھوڑ کی ان کے والد کی طبیعت بگڑ گئی جس پر انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے۔‘

9 مئی کے واقعات میں پولیس نے ارسلان نسیم کو گرفتار کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پولیس کی تردید اور شکوک و شبہات

سوشل میڈیا پر خبر آنے کے بعد لاہور پولیس نے اس حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے۔
پولیس بیان کے مطابق ’پولیس ذرائع نے سوشل میڈیا پر ارسلان نسیم کے بارے وائرل ہونے ولای ایک پوسٹ جس میں یہ غلط تاثر دیا گیا ہے کہ پولیس کے تشدد سے ارسلان کے والد ہلاک ہوگئے ہوئے، کو پروپیگنڈا، من گھڑت کہانی، حقائق کے منافی اور بے بنیاد قرار دیا ہے پولیس ذرائع کے مطابق تشدد والی بات بالکل جھوٹ ہے۔‘
پولیس کی طرف سے جاری بیان کے علاوہ لاہور کا کوئی افسر اس واقعہ پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ خود پولیس کے اس بیان میں کسی افسر کے بجائے پولیس اپنے ذرائع کے ذریعے سے بیان جاری کر رہی ہے جو مزید شکوک و شبہات کا باعث ہے۔
پولیس نے سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کی صرف تشدد کی حد تک تردید کی ہے کہ ارسلان کے والد کی تشدد سے ہلاکت نہیں ہوئی۔ البتہ دیگر الزامات پر کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
رانا انتظار کا کہنا ہے کہ پولیس نے خاندان کے افراد کو بلا وجہ ہراساں کیا ہے خواتین کے ساتھ بھی بدسلوکی کی ہے۔
’ہمارا سوال ہے کہ جب اس بچے کی ضمانت ہو گئی تھی تو پولیس اس کو دوسرے کسی مقدمے میں کیوں گرفتار کرنا چاہتی تھی؟ اگر وہ طاقت کا بے دریغ استعمال نہ کرتے تو صورت حال مختلف تھی۔
اتحاد کالونی کے عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے گھر پر دو روز میں چار ریڈز کیے اور گھر والوں کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔ تشدد کے الزامات کی تصدیق البتہ اہل علاقہ بھی نہیں کر رہے۔

ارسلان نسیم کے والد محمد نسیم سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرتے تھے۔ (فوٹو: فیملی)

ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پولیس کی ریڈ کے بعد یہ لوگ گھر چھوڑ گئے تھے رات کو جب دوبارہ پولیس چار گاڑیوں میں آئی تو گھر کا دروازہ توڑ کر اہلکار اندر گئے اور توڑ پھوڑ کی۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب نسیم صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا تو وہاں وہ دم توڑ گئے اس کے بعد پولیس نے تدفین کا عمل فوری کرنے کا حکم دیا۔ اور تین گھنٹے کے اندر اندر انہیں دفنا دیا گیا۔
ارسلان نسیم خود کہاں ہیں ابھی اس بارے کسی کو علم نہیں جبکہ ان کی والدہ اور بہنیں بھی روپوش ہو چکی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی ایک بہن سے منسوب آڈیو بیان چلایا جا رہا ہے جس میں وہ اس رات پیش آنے والے واقعات کی تفصیل بتا رہی ہیں۔ جس کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
تاہم پولیس کی تشدد کے معاملے پر وضاحت اس حوالے سے ناکافی اور مزید شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے کہ آخر یہ واقعات سرے سے پیش ہی کیوں آئے ان کا جواب صرف پولیس کے پاس ہے۔

شیئر: