Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف انتخابات کیلئے تحریک انصاف کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے جا رہے ہیں؟

نواز شریف نے تقریباً 10 برسوں کے بعد لاہور ماڈل ٹاون میں مسلم لیگ ن کے مرکزی دفتر میں وقت گزارا (فائل فوٹو: پی ایم ایل این، فیس بک پیج)
پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور سیاسی طور پر اس سے ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے لاہور میں ڈیرے لگا لیے ہیں اور باقاعدہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر چکے ہیں۔
پیر کے روز انہوں نے تقریباً 10 برسوں کے بعد لاہور ماڈل ٹاون میں مسلم لیگ ن کے مرکزی دفتر میں وقت گزارا۔
اس دفتر میں آخری مرتبہ وہ اس وقت موجود تھے جب 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے فاتح قرار پائی تھی تو انہوں نے اپنی فاتحانہ تقریر بھی ماڈل ٹاؤن کے اسی دفتر کی چھت پر کی تھی۔
اس کے بعد وہ وزیراعظم بنے۔ بعدازاں اس منصب سے وہ ہٹائے گئے، پھر جیل کاٹی اور اس کے بعد خود ساختہ جلاوطنی کے چار برس گزارے۔ اب انہوں نے دوبارہ اسی دفتر سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے۔
پیر کو انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے ایک طویل ملاقات کی۔ اس اجلاس کے بعد میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں یہ کہا گیا ہے اس اجلاس میں نواز شریف نے پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز سے متعلق بات کی گئی۔
 اس اجلاس میں پاکستان میں جاری سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے بھی لیگی رہنماؤں نے سیرحاصل گفتگو کی۔
اس میٹنگ میں شریک ایک لیگی رہنما نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اکثر پارٹی رہنماؤں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے آئندہ انتخابات کے حوالے سے بات چیت کے چینل کھولے جانے چاہییں۔ اس سے نہ صرف آئندہ انتخابی عمل پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے بلکہ سیاسی درجہ حرارت میں بھی کمی آئے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ سب ہو گا کیسے اس حوالے سے ابھی روڈ میپ نہیں بنا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ تحریک انصاف کی قیادت تو اس وقت نظر بھی نہیں آ رہی تو کس سے بات چیت کی جائے گی تو ان کا کہنا تھا کہ ’یقینا جو دستیاب قیادت ہو گی اس سے ہی بات ہو گی۔ جو لوگ قانون کا سامنا کر رہے ہیں، ان سے بات یقیناً عدالتوں کے فیصلوں کے بعد ہی ہو گی۔ لیکن جو لوگ بھی باہر ہیں اور ان کے پاس بات کرنے کا مینڈیٹ ہے۔ ان سے بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نواز شریف اس بارے میں واضح ہیں کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی ہیں۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف یہ اجلاس جاری تھا تو دوسری طرف پاکستان کے مقامی میڈیا پر ایسی خبریں چلائی گئیں کہ زرداری نواز ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے اور سیاسی موضوع پر بات چیت ہوئی ہے۔ تاہم دونوں کیمپوں سے اس خبر کی تردید کی گئی۔
ماڈل ٹاؤن میں ن لیگ کے اجلاس میں شریف لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق سے جب پوچھا گیا کہ کیا ن لیگ تحریک انصاف سے بات چیت کرے گی تو انہوں نے اس بات کی تردید کی اور نہ ہی کھلی تصدیق کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کس سے بات ہو گی اور کب ہو گی، اس کا فیصلہ نواز شریف کریں گے۔ وہ اب واپس آ چکے ہیں، سیاسی گاڑی کا سٹیئرنگ ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے۔ اچھے کے لیے کریں گے۔‘

تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن کا کہنا ہے کہ ’تحریک انصاف ایسی کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کرے گی (فائل فوٹو: پی ایم ایل این، فیس بک)

مسلم لیگ ن کی پنجاب کی ترجمان عظمہ بخاری سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میاں صاحب نے اپنی مینار پاکستان والی تقریر میں واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ محاذ آرائی کی سیاست نہیں کریں گے۔ اگلے کچھ دنوں میں آپ کو ایسی خبریں ملیں گی کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔‘
تحریک انصاف سے متعلق بات کرتے ہوئے البتہ ان کا کہنا تھا کہ ’اس بات کا دارومدار ہے جو لوگ تخریبی سیاست کا حصہ نہیں ہیں۔ ان سے بات کرنے میں کسی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ایک بات میں مسلم لیگ ن واضح ہے کہ جیل میں بیٹھے شخص سے بات نہیں ہو گی۔‘
مسلم لیگ ن کے کیمپوں سے آنے والی مصالحتی سیاست کی آوازوں سے متعلق تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن کا کہنا ہے کہ ’تحریک انصاف ایسی کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کرے گی۔ اور ہمیں کوئی ایسا دعوت نامہ ملتا ہے تو ہم یقیناً اس پر مشاورت کریں گے اور اس کا مثبت جواب دیں گے۔‘
انہوں نے کہا ’میں ذاتی طور پر ایسی سیاست کا قائل ہوں جس میں بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے چاہییں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں بات چیت کے لیے آمادہ ہیں کیونکہ آگے کا راستہ بات چیت سے ہی نکلتا ہے۔‘

شیئر: