Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملٹری کورٹس ٹرائل: 9 مئی کے ملزمان تاحال فوج کی تحویل میں

23 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو ملزمان کے ٹرائل سے روکا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے گذشتہ ماہ اکتوبر میں فوجی عدالتوں کو کام سے روک دیا گیا تھا جو 9 مئی کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث ملزمان کا ٹرائل کر رہی تھیں۔
23 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے کئی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ملک میں کام کرنے والی فوجی عدالتوں کو ملزمان کے ٹرائل سے روکا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد تاحال فوج کی تحویل میں موجود 104 ملزمان کو سویلین حکام کے حوالے نہیں کیا گیا۔
نو مئی کے کیسز کے لیے تعینات کیے گئے خصوصی پراسیکیوٹر فرہاد علی شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم اپنی تیاری کر رہے ہیں اور لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں کئی مقدمات کے چالان بھی داخل کیے جا چکے ہیں۔‘
’جو ملزمان عدالتوں کے ذریعے فوج کی تحویل میں دیے گئے تھے وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ابھی تک واپس نہیں آئے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں جیسے ہی عدالت ان مقدمات کو ٹرائل کے لیے لگائے گی تو ان افراد کو عدالت میں پیش کرنے کا بھی حکم جاری کرے گی کیونکہ ملزمان کی عدالت کے روبرو پیشی کے بغیر ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا۔‘
ایک سوال کے جواب میں فرہاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئے تین ہفتے ہو چکے ہیں۔ فیصلہ آن گراؤنڈ ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو انٹرا کورٹ اپیل میں چیلنج کرے مگر میرے پاس ابھی ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘
ملکی قوانین کے تحت سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کے خلاف 30 روز کے اندر اندر انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست میں ملزمان کی ابھی تک فوج کی حراست میں موجودگی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

لاہور ہائی کورٹ میں اس حوالے سے ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملزمان کی ابھی تک فوج کی حراست میں موجودگی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، تاہم یہ درخواست ابھی سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی۔
سینیئر قانون دان اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ ’اگر وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل میں جا رہی ہے تو شوق سے جائے، لیکن عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اس وقت نافذ ہے اور ایک دن کی بھی فوجی حراست غیر قانونی ہے۔‘
’اپیل دائر ہونے کے بعد بھی اگر نیا بینچ حکم امتناعی جاری نہیں کرتا تو گذشتہ فیصلہ ہی لاگو تصور ہوگا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان ملزمان کو واپس کیا جاتا تاکہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد ہوتا اور قانون کی حکمرانی قائم ہوتی۔‘
وفاقی حکومت کی فوجی عدالتوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر کیا حکمت عملی ہے؟ اس سوال کا جواب وفاقی وزارت قانون کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت کے محکمے اور بشمول صوبے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنے جا رہے ہیں۔‘

اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ ’عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اس وقت نافذ ہے اور ایک دن کی بھی فوجی حراست غیر قانونی ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’آئندہ چند دنوں میں یہ اپیل دائر ہو جائے گی جس کے لیے ملک کے سینیئر وکلا کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وفاقی حکومت کی اس اپیل میں نمائندگی اٹارنی جنرل منصور اعوان کریں گے۔ وزارت دفاع نے اس حوالے سے خواجہ حارث کو اپنا وکیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
وزارت قانون کے اعلٰی افسر کا کہنا ہے کہ ’وزارت داخلہ نے احمر بلال صوفی کی خدمات حاصل کی ہیں، جبکہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں بھی اپنے اپنے وکیل کر رہی ہیں۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ابھی اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اس حوالے سے وزارت قانون ہی بہتر بتا سکتی ہے۔‘
خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے دیا تھا، جبکہ سینیٹ آف پاکستان نے منگل کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ایک قرارداد بھی منظور کی ہے۔

شیئر: