Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرد انتخابات: اردو نیوز سروے، کیا ایسا ہی ہو گا؟

رائے دہندگان میں 33.7 فیصد نے تحریک انصاف کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
 یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے پاکستان میں گذشتہ چالیس برسوں میں انتخابات کو قریب سے دیکھا ہے لیکن آنے والے 8 فروری کے انتخابات  کی اردو نیوز اور اردو انڈیپنڈٹ کی میڈیا کوریج کے لیے آج مجھے موقع ملا ہے وہ انتہائی نادر ہے کیونکہ ہماری میڈیا کوریج کا ٹارگٹ وہ پاکستانی اور اردو بولنے والے قارئین ہیں جو سعودی عرب، خلیج اور دنیا کے دیگر ممالک میں مقیم ہیں۔
 یہ انتخابات جو 8 فروری کو ہونے والے ہیں ان میں ووٹرز پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے نمائندوں کے انتخاب کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ یہ بھی توقع کی جارہی ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن سادہ اکثریت سے کامیاب ہوجائے گی۔
خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اس سے قبل تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور آخری مرتبہ ان کی وزارت 2013 میں واضح اکثریت کے ساتھ تھی۔
انتخابات میں 150 سے زیادہ پارٹیاں حصہ لے رہی ہیں جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی میدان میں اتر چکے ہیں۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ آزاد امیدوار انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کی تشکیل اور روڈ میپ میں اہم کردار ادا کریں گے۔
ان انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ سے زیادہ ہے جو جمعرات کو اپنا ووٹ ڈالیں گے۔ ایسے انتخابات جس کے انعقاد سے پہلے عدالتی  فیصلے سامنے آئے جن کا بظاہر نشانہ سابق وزیر اعظم عمران تھے جن کی حکومت اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے ذریعے ختم کردی گئی تھی۔
حالیہ انتخابات سے عمران خان  باہر ہیں کیونکہ انہیں کئی الزامات کی بنا پر قید کی سزا سنائی گئی ہے جس میں نمایاں توشہ خانہ ریفرنس میں 14 سال، سائفر کیس میں دس سال، عدت کیس میں 7 سال کی سزائیں ہوئی ہیں جبکہ توشہ خانہ کے ایک اور مقدمے میں تین سال کی سزا سنائی گئی جو معطل ہے۔
علاوہ ازیں انہیں سیاست سے بھی 10 سال کے لیے دور رکھا گیا ہے۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ آزاد امیدوار انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کی تشکیل اور روڈ میپ میں اہم کردار ادا کریں گے۔ (فوٹو: ایکس)

ان تمام باتوں کے باوجود عمران خان کا اثر و رسوخ اب بھی واضح ہے اور یہ بات اردو نیوز کے سروے سے بھی واضح طور پر نظر آتی ہے جس کے مطابق مطابق آٹھ فروری کے انتخابات میں رائے دہندگان کی اکثریت پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ دینا چاہے گی۔
رائے دہندگان میں 33.7 فیصد نے تحریک انصاف کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
اس کے ساتھ 35 سالہ بلاول بھٹو زرداری بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جو ان کی سیاست دور اندیشی کا امتحان ہے۔
اس سے قبل انہوں نے عمران خان کی حکومت گرانے والے اپوزیشن اتحاد کی 2022 میں قائم ہونے والی حکومت میں وزیر خارجہ کا منصب سنبھالا تھا۔
حالانکہ اس بات کی امید نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی انتخابات بڑی کامیابی حاصل کرے گی اور وہ مرکز میں دوسروں کی مدد کے بغیر تنہا حکومت بناسکیں گے۔
اس کے باوجود جنوبی سندھ میں ان کا اثر ورسوخ واضح ہے اور وہ وہاں کامیابی کی امید ہے۔ کسی بھی سیاسی اتحاد میں پیپلزپارٹی کا کردار نہایت اہم ہوگا۔
انتخابات سے پہلے کے ماحول سے متعلق بہت کچھ کہنے کو ہے۔ انتخابی تشہیر اور مہم ، انتخابی اتحاد اور دیگر بہت کچھ لیکن ہمارے نزدیک جو سب سے اہم ہے وہ پاکستان کا امن و استحکام ہے۔

اس بات کی امید نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی انتخابات بڑی کامیابی حاصل کرے گی۔ (فوٹو: بلاول ایکس)

انتخابات کا کامیابی سے انعقاد ہو اور آنے والی حکومت آسانی کے ساتھ تشکیل پائے۔ قومی یکجہتی کو فروغ  ملے، معاشی مسائل حل ہوں اور پاکستان کی معیشت مستحکم ہو تاکہ پاکستان اسلامی دنیا میں اپنا کردار ادا کرے اور علاقائی امن وسلامتی میں اپنا وجود ثابت کرے۔
اس کے ساتھ پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوں، مشرق وسطی  اور عالم اسلام کی امن وسلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کرے  اور عالمی امن وسلامتی میں اس کا موثر کردار ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابات انتہائی سرد ماحول میں ہو رہے ہیں اور انتخابات کی گرمی اس سرد ماحول کو گرما نہیں پا رہی۔ ہم انتظار کر رہے ہیں جمعرات کی رات 9 بجے کا جب انتخابات کی گرمی اپنے عروج پر پہنچے گی۔ شاید اس وقت تک امن وسلامتی اور استحکام کی گرمی چھا جائے جس کا پاکستانی عوام کو کئی دہائیوں سے انتظار ہے۔
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہو۔

( فہیم الحامد اردو نیوز، انڈیپینڈنٹ اردو اور ملیالم نیوز کے جنرل سپروائز ہیں)

 

شیئر: