وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ ختم کر دیا گیا۔
پیر کی رات وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ’آئندہ ملک میں کسی بھی نئی نہر کی تعمیر صرف اُس وقت ممکن ہو گی جب تمام صوبوں کے درمیان مکمل اتفاق رائے قائم ہو جائے گا۔‘
وفاقی حکومت نے واضح کیا کہ زرعی ترقی اور پانی کے بہتر انتظام کے لیے ایک نئی طویل المدتی پالیسی تیار کی جائے گی،جس پر تمام صوبے اور وفاق مشترکہ طور پر عمل درآمد کریں گے۔ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ موجودہ وقت میں نئی نہروں کے حوالے سے کی گئی عبوری منظوریوں جیسا سات فروری (2024) کی ایکنک اجلاس اور 17 جنوری (2024) کو جاری شدہ واٹر سرٹیفکیٹ کو بھی واپس کیا جائے گا، تاکہ تمام فریقین کی مشاورت کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھایا جائے۔
اجلاس کے ختم ہونے بعد وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں انڈیا کے غیرقانونی اقدامات کی شدید مذمت کی گئی اور پوری قوم کے اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیا گیا۔ پانی کے حقوق کے حوالے سے بھی واضح کیا گیا کہ اگر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی یا پاکستان کے پانی کو روکا گیا تو پاکستان اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کرے گا۔
اعلامیے کے مطابق ’وزیراعظم شہباز شریف کی زی صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے 52 ویں اجلاس میں ملکی سلامتی، آبی وسائل اور قومی اتحاد جیسے اہم موضوعات پر گفتگو ہوئی۔‘
’اجلاس کا آغاز پہلگام واقعے کے تناظر میں بھارت کے یکطرفہ، غیرقانونی اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کی شدید مذمت سے ہوا۔ مشترکہ مفادات کونسل نے قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے واضح پیغام دیا کہ انڈیا کی اشتعال انگیزی کے مقابلے میں پاکستان ایک پرامن اور ذمہ دار ریاست ہے، مگر اپنے دفاع کا فن بخوبی جانتا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’اجلاس میں شریک چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے یک زبان ہو کر انڈیا کے غیرقانونی اقدامات کے خلاف اتحاد اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ اجلاس کے دوران سینیٹ میں منظور کی گئی قرارداد، جس میں انڈین اقدامات کی شدید مخالفت کی گئی تھی، کو بھی بھرپور پذیرائی ملی۔‘
پانی پر قومی اتفاق
اجلاس میں پانی کے مسئلے پر بھی اہم فیصلے کیے گئے۔ مشترکہ مفادات کونسل نے واضح کیا کہ اگر انڈیا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے پانی کو روکنے کی کوشش کرے گا تو پاکستان اپنے آبی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔

اسی تناظر میں، نئی نہروں کی تعمیر سے متعلق وفاقی حکومت کی پالیسی کی منظوری دی گئی۔ کونسل نے فیصلہ کیا کہ اب کسی نئی نہر کی تعمیر کا آغاز اُس وقت تک نہیں ہو گا جب تک تمام صوبوں کے درمیان مکمل باہمی اتفاق رائے نہ ہو جائے۔
اس مقصد کے لیے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جا رہی ہے، جس میں وفاق اور صوبوں کی نمائندگی ہوگی۔ یہ کمیٹی طویل المدتی زرعی ترقی اور پانی کے مؤثر استعمال کے لیے جامع تجاویز مرتب کرے گی۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام آبی تنازعات کو باہمی افہام و تفہیم اور آئینی دائرہ کار کے تحت حل کیا جائے گا۔
اعلیٰ قیادت کی موجودگی
وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ’آج کے اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف، وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان انجینیئر امیر مقام اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔ اجلاس نے ملکی سیاسی قیادت کی مکمل یکجہتی اور حساس قومی معاملات پر ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا، جسے ماہرین نے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔‘
