Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی سیاست میں بھونچال

پارلیمنٹ کی عزت کو خاک میں ملا دیا گیا ، پارٹی امکانات کا جنازہ نکالا گیا ، باقی کیا بچا، یہی سوال تو اہم ہے
* * * * صلاح الدین حیدر* * * *
دُنیائے سیاست میں بھونچال تو آتے ہی رہتے ہیں، ایسا نہ ہو تو پھر سیاست ہی کیا ہوئی۔ برطانیہ جو جمہوریت کا گڑھ ہے اور جہاں جمہوریت قریباً 8 سو سال سے لنگڑی لولی، جیسی بھی، ابھی تک چلتی ہی آرہی ہے۔ پانامہ لیکس کا ایشو ہوا تو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے والد کے 40 ہزار پائونڈز کا حساب نہ دینے پر مستعفی ہوگئے۔ تھریسامے نے عہدہ سنبھالا لیکن سر منڈاتے ہی اولے پڑنے لگے، بے چاری کو مجبوراً نئے انتخابات کرانے پڑے۔ اِس وقت جب یہ کالم لکھا جارہا ہے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کی پوزیشن غیر مستحکم نظر آرہی ہے۔ ہوسکتا ہے اُسے حکومت بنانے کیلئے 326 نشستیں نہ مل سکیں، لیکن جب یہ کالم چھپ چکا ہوگا تو نتائج سامنے آچکے ہوں گے اور اُمید تو یہی ہے کہ شاید لیبر پارٹی پھر سے برسراقتدار آجائے۔ ایسی صورت میں مزید تبصرہ فضول ہوگا۔ مگر مملکت خداداد پاکستان میں تو عجیب ہی صورتحال ہے۔ یہاں کی پارلیمانی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگیا ہے، جو سب کیلئے تشویش ناک ہے۔ حکمراں (ن) لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی نے ایک دھواں دھار تقریر داغ ڈالی۔
اُنہوں نے گرج چمک کے ساتھ نواز شریف کے بیٹے کو پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے بلائے جانے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور جوش خطابت میں یہاں تک بہک گئے کہ نہ صرف سپریم کورٹ کے ججوں بلکہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے افسران کو دھمکی بھی دیدی کہ وہ آج ملازمت میں ہیں، جلد ریٹائر ہوجائیں گے، پھر ہم اُنہیں دیکھ لیں گے، اُن کے بچوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا جائے گا۔ پاکستان کی سرزمین پر وہ رہ نہیں سکیں گے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سینیٹر کی زبان تھی یا حکمِ شاہی تھا۔ پاکستانی قوانین کے مطابق سینیٹ یا ایوانِ بالا کی رکنیت کی میعاد 6 سال ہوتی ہے۔ نہال ہاشمی، ایک وکیل ہونے کے ناتے، نواز شریف کے آگے پیچھے پھرنے میں اپنی عزت سمجھتے تھے۔ پارٹی کے سربراہ کی جلاوطنی کے دوران انہوں نے وکلا تحریک میں تھوڑا سا کردار بھی ادا کیا، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ نواز شریف جس کو اپنے قریب یا اپنا حمایتی پاتے ہیں، اُسے نوازتے ضرور ہیں۔ منصبِ اعلیٰ سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے نہال ہاشمی کو سینیٹر بنایا، وہ بھی پنجاب سے، اس لئے کہ سندھ میں (ن) لیگ کے پاس 14 صوبائی اسمبلی کے ارکان نہیں تھے۔ نواز شریف پہلے بھی ایسا کرچکے ہیں۔ انہوں نے صوبہ سندھ کے صدر اور دیرینہ ساتھی غوث علی شاہ (جو ان کی کابینہ میں وزیر دفاع تھے) کو پنجاب سے سینیٹ کا رکن منتخب کروایا۔ غوث علی شاہ نے نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا۔ دور جلاوطنی میں اُن کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا، اُن کا بیٹا دُنیا سے چلا گیا، لیکن وہ اُن دونوں کی لاش کو کندھا تک نہیں دے سکے۔ مشرف نے اُنہیں ملک بدر کردیا۔ بعد میں جب وعدے کے مطابق غوث علی شاہ کو صدر مملکت کا عہدہ نہیں دیا گیا تو وہ خاموشی سے گھر بیٹھ گئے۔
اب تو شاید اُن کی سیاست کا اختتام ہونے والا ہے۔ نہال ہاشمی ایک جذباتی شخص ہیں۔ اُن کی شعلہ بیانی نے نواز شریف اور (ن) لیگ کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔ چند گھنٹے بعد ہی نواز شریف نے احکامات جاری کیے کہ نہال ہاشمی کی پارٹی کی بنیادی رکنیت معطل کردی جائے اور سینیٹ سے مستعفی ہونے کو کہہ دیا گیا۔ نہال خود چل کر سینیٹ چیئرمین کے دفتر گئے اور اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوا استعفیٰ پیش کردیا۔ بات ٹھنڈی ہوتی نظر آئی، لیکن دوسرے دن جب سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے تو جج صاحبان نے اُن سے وضاحت طلب کی کہ آخر اُنہوں نے عدالت کی توہین کیوں کی۔ معافی مانگ لینے پر عدالت نے نرم رویہ اختیار کیا، لیکن پھر بھی اُنہیں 16 جون تک اپنا وضاحتی بیان جمع کروانے کو کہا۔
اس بیچ میں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی جو ایک ماہرِ قانون ہونے کے علاوہ، سنجیدہ اور تجربہ کار پارلیمنٹرین ہیں، یہ کہہ کر کہ وہ جب تک نہال ہاشمی کی بات سن نہیں لیں گے، استعفیٰ منظور نہیں کریں گے، شاید یہی بات تھی جس پر نہال ہاشمی کو شہ مل گئی اور اُنہوں نے عدالت سے باہر آکے پھر اول فول بکنا شروع کردیا۔ میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔ میری تقریر کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، سارا الزام تحریک انصاف اور عمران خان پر ڈال دیا کہ وہ بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں، کوئی اُنہیں کچھ نہیں کہتا، اب تو میں استعفیٰ واپس لوں گا اور کیا بھی ایسا ہے۔ جس وقت میں یہ سطور تحریر کررہا ہوں، سینیٹ چیئرمین نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ چونکہ نہال ہاشمی نے استعفیٰ واپس لے لیا ہے اور یہ بھی کہہ ڈالا کہ اُنہوں نے استعفیٰ غیر معمولی دبائو کے تحت دیا تھا، اس لئے وہ اُسے قانون کے مطابق قبول نہیں کرسکتے اور اُن کی نظر میں نہال ہاشمی بدستور سینیٹر ہیں۔ اب کیا تھا ملکی سیاست کی کایا ہی پلٹ گئی۔ حزب اختلاف نے آسمان سر پر اُٹھالیا۔ پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے تو صاف طور پر کہہ دیا کہ نہال ہاشمی کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ زبان تو وہ نواز شریف کی بول رہے تھے، کچھ اس طرح کے جملے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بیرسٹر اعتزاز احسن کی طرف سے بھی سننے میں آئے۔ اُنہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ یہ سب نواز شریف کی چال ہے۔ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی پر دبائو بڑھانا تھا کہ وہ اُن کیخلاف فیصلہ نہ دیں اور نواز شریف نااہل ہونے سے بچ جائیں۔ نہال ہاشمی کو استعمال کیا گیا۔
تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں رکن اور سیکریٹری اطلاعات شفقت محمود نے بھی کچھ ایسا ہی بیان دے ڈالا، شکوک شبہات کی نئی دوڑ کا آغاز ہوگیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب نواز شریف کیا کریں گے۔ اُنہوں نے ایک 5رُکنی کمیٹی جہاندیدہ پارلیمنٹرین کی قیادت میں بنا تو ڈالی لیکن اپوزیشن کے ہاتھ ایک اور پروپیگنڈا کا بہانہ آگیا کہ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ سب نواز شریف کی چال ہے۔ کمیٹی بنادی، کمیٹی اوٹ پٹانگ کوائف اکٹھے کرکے معاملات کو کسی اور طرف موڑ دے گی، اﷲ اﷲ خیر صلا۔ نہال ہاشمی کو پارٹی سے تو نکالا جا سکتا ہے لیکن اُنہیں سینیٹ سے کیسے دستبردار کیا جائے گا یہ معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا لیکن نہال ہاشمی کی سیاست تو ختم ہوگئی، اس میں کوئی شبہ نہیں۔ خود (ن) لیگ میں ارکان پارلیمنٹ تشویش میں مبتلا دِکھائی دیتے ہیں اور سینیٹ کے چیئرمین سے مطالبہ کرتے نظر آئے کہ اُنہیں سینیٹ سے باہر کریں۔ ایسا نہیں ہوا تو نواز شریف جس خفت سے بچنا چاہتے تھے ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک اور مصیبت اُن کے سر پر آپڑی ہے۔اُن کے بیٹے کی ایک تصویر لیک کی گئی سوشل میڈیا پر جہاں وہ اکیلے کمرے میں تن تنہا ایک بینچ پر بیٹھے نظر آئے۔ اعتزاز احسن کہاں چُوکنے والے تھے، فوراً ہی بیان داغ دیا کہ یہ سب برسراقتدار لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ نواز شریف نے ہمدردیاں جمع کرنے کیلئے سب ڈراما رچایا ہے، واﷲ اعلم بالصواب۔ چونکہ ہمیں ان سب باتوں کا علم نہیں ، اس لئے کسی بھی تبصرے سے گریز کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اپنے قارئین تک ان تحاریر کو پہنچانے تک اچھے خاصے اور اہم واقعات وقوع پذیر ہوچکے تھے۔ جے آئی ٹی نے 7 جون کو اپنی دوسری رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کردی۔
جے آئی ٹی کے چیئرمین واجد ضیا (جو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ہیں) نے میڈیا کے اصرار پر صاف طور پر کہہ دیا کہ جو کچھ تہمت ہم پر لگائی جارہی ہے، ہم نے اُس کا نوٹس لیا ہے اور ان تمام سوالات پر ہم ایک اور رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کریں گے، تاکہ ہماری عزت پر حرف نہ آنے پائے۔ کسی بھی حکومتی عہدے دار کا یہ کہنا بے معنی نہیں ہوتا۔ چند جملوں میں جے آئی ٹی کے چیئرمین (جن کا تقرر سپریم کورٹ نے کیا ہے) نے حکومت کا دبائو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ویسے بھی جے آئی ٹی نے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد (جن پر عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ وہ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت میں نواز شریف کے اثاثے باہر ممالک میں منتقل کرنے میں آگے آگے تھے) سے 13 گھنٹے تک سوالات کیے جو کسی طرح بھی کم اہم نہیں تھے۔ نواز شریف کے بیٹے حُسین نواز کو 4 مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ اُن سے مجموعی طور پر 17 سے 20 گھنٹے تک جرح کی گئی، لیکن حُسین نواز نے بھی خندہ پیشانی سے حالات کا مقابلہ کیا۔ اب خبر یہ ہے کہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ تمام تر معاملات پر طائرانہ نظر بھی دوڑائی جائے تو ایک بات تو اظہر من الشمس ہے کہ ملکی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے، پارلیمنٹ کی عزت کو بھی خاک میں ملادیا گیا، پارٹی کے احکامات کا جنازہ نکالا گیا، باقی کیا بچا، یہی سوال تو اہم ہے۔

شیئر: