غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 34 افراد ہلاک: سول ڈیفنس ایجنسی
ہلاک ہونے والوں میں وہ شہری بھی شامل ہیں جو امداد کے منتظر تھے (فوٹو: اے پی)
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے کم از کم 34 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن میں ایک درجن سے زائد وہ شہری بھی شامل ہیں جو امداد لینے کے منتظر تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بصل نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے نو افراد ہلاک اور 181 اُس وقت زخمی ہوئے جب وہ شمالی غزہ میں ایک سرحدی کراسنگ کے قریب امدادی سامان لینے کے لیے جمع تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے وسطی غزہ میں ایک امدادی مقام کے قریب جمع ہونے والے شہریوں کو نشانہ بنانے کے بعد مزید چھ افراد ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے۔
سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بصل نے بتایا کہ وسطی غزہ میں ہونے والے حملوں کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں جبکہ جنوبی شہر خان یونس کے قریب ڈرون حملے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
22 ماہ سے جاری جنگ نے 20 لاکھ سے زائد آبادی رکھنے والے علاقے کو باہر سے آنے والے امدادی سامان تک محدود کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب غذائی ماہرین نے علاقے میں قحط کی سی صورت حال سے بھی خبردار کیا ہے۔
پچھلی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے مارچ میں اسرائیل نے علاقے میں کھانے پینے کے سامان کی ترسیل پر پابندی لگا دی تھی۔
یہ تازہ ہلاکتیں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے کی منظوری دے چکی ہے۔
دو روز قبل جمعے کو سکیورٹی کابینہ کے اجلاس سے قبل فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں جب بنیامین نیتن یاہو سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیل غزہ کے تمام علاقوں کا کنٹرول سنبھال لے گا، تو ان کا جواب تھا: ’ہم ارادہ رکھتے ہیں وہاں سے حماس کو ختم کرنے کا، اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے، غزہ کی آبادی کو آزادی دلانا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس پر تسلط نہیں چاہتے۔ ہم اسے عرب افواج کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں دھمکی دیے بغیر اس پر صحیح طریقے سے حکومت کریں گی اور غزہ والوں کو اچھی زندگی دیں گی۔‘
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک کا کہنا ہے کہ ’غزہ کی پٹی پر مکمل فوجی قبضے کے اسرائیلی حکومت کے منصوبے کو فوری طور پر روک دیا جانا چاہیے۔‘
خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ (منصوبہ) عالمی عدالتِ انصاف کے اس فیصلے کے خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو دو ریاستوں کے متفقہ حل اور فلسطینیوں کے حق خودارادیت کے لیے جلد از جلد اپنے قبضے کو ختم کرنا چاہیے۔‘
