دنیا میں کئی جگہ کھانا پکانے کا سیدھا سادا عمل انتہائی مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ صحرائے اعظم کے زیریں علاقوں اور ایشیا کے کچھ حصوں میں لاکھوں خاندان کھلی آگ اور روایتی چولہوں پر گزارا کرتے ہیں جو لکڑی، کوئلے یا مٹی کے تیل سے جلتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق کھانا پکانے کے یہی طریقے گھروں کو زہریلے دھوئیں سے بھر دیتے ہیں، ماحول کو خراب کرتے ہیں اورعالمی سطح پر زہریلی گیسوں کے اخراج میں بہت حد تک اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
گو سعودی عرب میں اس انداز سے کھانا، شاذ و نادر ہی پکایا جاتا ہے، لیکن مملکت بین الاقوامی سطح پر اس خاموش بحران سے نمٹنے کے لیے رہنما کردار ادا کر رہی ہے۔

ہر سال 40 لاکھ بے وقت کی اموات کو کھانا پکانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی سے جوڑا جاتا ہے لیکن خطرات اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق کھانا پکانے کے روایتی ایندھن سے کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے عالمی اخراج کا صرف دو فیصد ہے لیکن سیاہ کاربن گیس کے اخراج میں یہ حصہ بڑھ کر 58 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کی آلودگی کے عناصر، آب و ہوا میں تبدیلی کو تیز کرتے ہیں اور انسانی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
یہ مسئلہ صحرائے اعظم کے زیریں علاقوں میں بہت شدید ہے جہاں انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق 960 ملین افراد، جوآبادی کا تین چوتھائی ہیں، ان کے پاس کھانا پکانے کے صاف متبادل نہیں ہیں۔ دنیا میں دو ارب افراد آج بھی ایسے طریقوں سے کھانا پکاتے ہیں جن سے آلودگی جنم لیتی ہے اور وہ روزانہ خود کو اور اپنے اہلِ خانہ کو نقصان دہ دھوئیں کی زد میں لاتے ہیں۔

عالمی اقتصادی فورم کے مطابق ’دنیا میں ایک تہائی انسانوں کو صاف ایندھن تک رسائی نہیں لہذا وہ آلودگی پھیلانے والے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے کھلی آگ یا مٹی کے تیل کے چولہے پر پکاتے ہیں۔ یہ نہ ملیں تو وہ جانوروں کا گوبر یا فصلوں کی باقیات اور کوئلوں کو جلاتے ہیں۔‘
عالمی اقتصادی فورم کے مطابق ’ ایسے زہریلے دھوئیں سے ہونے والی اموات کی تعداد، ملیریا سے مرنے والے افراد کی تعداد سے کہیں بڑھ کر ہے اور اس میں خواتین کے جان سے جانے کا تناسب بہت ہی زیادہ ہے۔‘
انٹرنیشنل انرجی کے ادارے کا تخمینہ ہے کہ کھانا پکانے کی غیر مُضِر سہولتیں لوگوں تک پہنچانے سے پانچ سال کے اندر کاربن ڈائی اوکسائیڈ کا اخراج 1.5 گیگا ٹن تک کم ہو سکتا ہے۔ اس میں 900 ملین ٹن تک کی کمی صحرائے اعظم میں پکانے کی صاف سہولتیں فراہم کرنے سے ہو سکتی ہے۔
’ورلڈ بینک کلیننگ کُکنگ فنڈ‘ کے ڈاکٹر یابے زانگ کہتے ہیں ’ ہر انسان کے لیے پکانے کی مفید سہولتوں کی فراہمی کو، ہر شعبہ ہائے زندگی کی ترقی کے لیے اہم تسلیم کیا جاتا ہے۔‘

’معاشرے اور خاص طور پر صحتِ عامہ کے لیے اس کے انتہائی مثبت اثرات ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان سہولتوں سے، ماحول میں بہتری کے علاوہ خواتین معاشرے کا کارگر حصہ بن سکتی ہیں اور بااختیار ہو سکتی ہیں۔‘
اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سعودی عرب نے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ 2021 میں ’فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹیو‘ کے دوران جو’ مشرق وسطی گرین انیشیٹیو‘ کے فوری بعد منعقد ہوا تھا، سعودی وزیرِ توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے دنیا بھر میں 750 ملین افراد تک صاف ایندھن کی فراہمی کے لیے دو بلین ڈالر کے مساوی فنڈ پرمبنی منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔
سعودی فنانشل آؤٹ لیٹ ’ارگام‘ کے مطابق انھوں نے کہا تھا ’صاف ایندھن کی فراہمی کے لیے فنڈ کے قیام کا آئیڈیا یہ ہے کہ ہم ایسے افراد کے لیے صحت کے مسائل میں کمی کر سکتے ہیں جو جانوروں کا گوبر یا فصلوں کی باقیات جلا کر پکاتے ہیں۔‘

ان کا یہ وژن رفتہ رفتہ ایک ٹھوس شکل میں تبدیل ہو رہا ہے جس کا ایک ثبوت ان کئی عالمی منصوبوں کا اعلان ہے جو مُضِر ایندھن سے پیدا ہونے والے مسائل کے پائیدار حل کے لیے تعاون کو فروغ دیتے ہیں۔
ایسا ہی ایک منصوبہ ’ایمپاورنگ افریقہ انیشیٹیو‘ ہے جو ایک سعودی پروگرام ہے، جس کا اعلان 2023 میں مشرقِ وسطٰی اور شمالی افریقہ کے لیے ریاض میں ہونے والی ’کلائمیٹ کانفرنس‘ کے دوران ہوا تھا۔ اس منصوبے کے تحت تمام تر توجہ کا مرکز افریقہ میں کمیونٹی کو توانائی کے صاف ذرائع فراہم کرنا، باہمی تعلق میں اضافہ، ای ہیلتھ اور ای ایجوکیشن جیسے حل ہیں۔
سعودی وزارتِ صحت اور وزارتِ مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تعاون سے، سعودی عرب کے ’آئل سیسٹینیبِلیٹی پروگرام‘ کے جس انیشیٹیو کا آغاز کیا گیا تھا وہ ’کُکنگ پروگرام‘ کے لیے صاف ایندھن مہیا کرنے کے ’مڈل ایسٹرن گرین انیشیٹیو‘ کو وسعت دیتا ہے۔
