’میری عمر محض 12 سال تھی، اور میں ایک چھوٹے سے سرکاری سکول میں پڑھتی تھی۔ ایک دن ہیڈ مسٹرس نے اعلان کیا کہ علاقے میں ایک بڑا سکول کھلا ہے وہ لوگ ٹیسٹ لینے آئیں گے جو لڑکی کامیاب ہو گئی تو اس کی ساری تعلیم مفت ہوگی اس لیے ٹیسٹ کی تیاری کریں۔ پھر وہ ٹیسٹ ہوا اور میں ان چار لڑکیوں میں تھی جو جَنڈ کے اس چھوٹے سے سکول سے علاقے میں بننے والے پہلے دانش سکول میں داخل ہوئیں۔‘
یہ الفاظ ہیں 25 سالہ مقدس فاروق کے جن کا تعلق اٹک کے علاقے جَنڈ سے ہے۔ وہ اس وقت انجینئیر ہیں اور ایک بھر پور زندگی گزار رہی ہیں۔
اپنی کہانی سناتے ہوئے مقدس فاروق کہتی ہیں کہ ’ہم چھ بہن بھائی تھے اور ابا مِرگی کے مریض تھے۔ اماں سلائی کر کے ہمیں پڑھا رہی تھیں کہ اچانک قدرت نے ایسا دروازہ کھولا کہ آج تک میں شکر گزار ہوں۔ اٹک کے پہلے دانش سکول میں ہم کل 96 سٹوڈنٹس داخل ہوئے تھے جن میں سے 76 نے آخر تک تعلیم حاصل کی اور اس وقت سب کہیں نہ کہیں سیٹلڈ ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
پنجاب میں پیرا فورس کی کارروائیوں سے تاجر کیوں پریشان ہیں؟Node ID: 893159
انہوں نے بتایا کہ ’میری ایک دوست سعودیہ میں آٹومیشن انڈسٹری میں ہیں۔ ایک پاکستان کی بڑی فری لانسر ہے اور میں انجینئیر ہوں۔ اپنے پورے خاندان کی پہلی لڑکی ہوں جو اتنا اوپر گئی۔ اب جب خاندان کی چھوٹی بچیاں کہتی ہیں نا کہ آنٹی مقدس کی طرح کا بننا ہے تو خوشی سے آنسو نکل آتے ہیں۔‘
پنجاب میں دانش سکول سسٹم 2010 میں اس وقت کے وزیراعلٰی شہباز شریف نے متعارف کروایا تھا۔ اس نئے سکول سسٹم میں داخلے کی لازمی شرط یہ رکھی گئی تھی کہ آپ غریب اور ذہین ہیں تو یہ سکول آپ کا ہے۔ سب سے پہلا دانش سکول جنوبی پنجاب کے علاقے رحیم یار خان میں 2010 میں کھلا تھا۔
دانش سکولوں کے پہلے بیچ کے طلبا میں سے ایک زاہد عباس بھی ہیں۔ ان کا تعلق راجن پور سے ہے۔ وہ اس وقت اسلام آباد میں ایک این جی او میں لیڈرشپ فیلو ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’میں اپنے پورے خاندان کا پہلا بچہ ہوں جو سکول گیا۔ اور ایسے سکول جس میں اب لوگ جانے کو ترستے ہیں۔ ہمارے خاندان میں تعلیم کا تصور بھی نہیں تھا۔ میرے والد صاحب نے دانش سکول کا ٹی وی پر اشتہار دیکھا تھا تو وہ مجھے لے کر علاقے کے پہلے دانش سکول گئے تو پتا چلا کہ میری عمر ایک سال کم ہے وہ 12 سال کا بچہ لیتے ہیں تو ہم واپس آ گئے۔ اگلے سال میں دوبارہ گیا لیکن تب میرے والد فوت ہو گئے تھے۔ میں نے ٹیسٹ پاس کر لیا اور مجھے داخلہ مل گیا۔‘
زاہد بتاتے ہیں کہ ’اگلے سات سال میں نے ہاسٹل میں گزارے اور جس طرح کی تعلیم اور ماحول وہاں دیا گیا میرے جیسا بچہ تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہاں مجھے گروتھ مائنڈ سیٹ ملا۔ اب میرے خاندان کے سارے بچے پڑھ رہے ہیں۔ اور میں ڈیولپمنٹ سیکٹر میں نوکری کر رہا ہوں۔‘

دانش سکول سسٹم ہے کیا؟
جنوبی پنجاب میں بننے والے پہلے دانش سکول کی پرنسپل مسز روبینہ بدر بتاتی ہیں کہ ’جب اس سکول کا افتتاح ہوا تھا تو 80 ملکوں کے سفیر اس تقریب میں شریک ہوئے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سکول کا آئیڈیا تھا کہ اس میں صرف غریب کا ذہین بچہ پڑھے گا۔ صرف 10 فیصد سیٹیں ایسے لوگوں کے لیے رکھی گئیں جو سیلف فنانس پر اپنے بچوں کو اس جدید سکول میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ ’ہمارے ہاں مسلسل 7 سال تک یعنی چھٹی جماعت سے بارویں تک طالب علم ایک ہی ماحول میں ہاسٹل میں رہتے ہیں جہاں ان کا کھانا پینا اوڑھنا بچھونا، صحت و تعلیم اور حتٰی کہ آگے یونیورسٹی میں داخلے اور اس کے بعد نوکری تک سب کچھ سرکار کرتی ہے۔‘
روبینہ بدر کے مطابق ’پاکستان کے پہلے دانش سکول کی پہلی کلاس میں کل 70 بجے چھٹی جماعت میں داخل ہوئے تھے جن کو چھان پھٹک کر میرٹ پر جنوبی پنجاب کے علاقوں سے اکھٹا کیا گیا تھا۔ ان سب میں ایک چیز مشترک تھی کہ وہ غریب لیکن ذہین تھے۔ ان میں سے 57 بچوں نے سات سال سکول میں گزارے باقی کسی وجہ سے چھوڑ گئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اور اب وہ سارے 57 زندگی میں بہت آگے جا چکے ہیں۔ ایک ہماری لڑکی ابھی کاکول میں ٹریننگ مکمل کر کے کمیشن پر سیکنڈ لیفٹیننٹ بنی ہے اس کی پہلی پوسٹنگ کھاریاں میں ہوئی ہے۔ ایک بچی انجینئر ہے، ایک یہیں رحیم یار خان میں ہیڈ نرس ہے۔ یہ بچے تعلیم کے ساتھ کھیلوں میں بھی بہت آگے تھے، کئی تو قومی کھیلوں تک پہنچے ہیں۔‘
روبینہ بدر کا کہنا تھا کہ شروع شروع میں جب پہلا بیچ تھا تو کئی والدین اور کئی بچے اتنے طویل ہاسٹل ایکسپیرینس کے لیے تیار نہیں تھے۔ ’لیکن ہمارے ماہر اساتذہ نے اس کو خوش اسلوبی سے حل کیا۔ مجھے یاد ہے ایک بچی ابھی ساتویں جماعت میں تھی تو اس کے والدین اس کی تعلیم ختم کروانے آ گئے کہ اچھی جگہ سے رشتہ مل گیا ہے۔ تو ہم نے ان کی کونسلنگ کی اور بچی کو تعلیم جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور وہ بالآخر مان گئے۔‘
