Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مفادات کی سیاست، کل کے دشمن آج کے دوست؟

سیاست اور جنگ میں سب جائز ہے جس کا مطلب ہے کل کے دشمن آج کے دوست ہوسکتے ہیں
ان اقوال کے بارے میں دو رائے نہیں کہ مثال کے طور پر جو یہ کہا جاتا ہے کہ سیاست اور جنگ میں سب جائز ہے یا یہ کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتا۔ مفادات کے حوالے سے اتحادی بدلتے رہتے ہیں۔ کل کے دشمن آج دوست بن گئے۔ یہ پاکستان کی سیاست میں پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور آج بھی یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جہاں کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ روز ایک بم شیل گرایا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ بانی تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لیے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے کہا تھا۔ مولانا کے اس بیان کو تحریک انصاف نے سراہا جبکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اس دعوے کو حقائق کے برخلاف قرار دیا۔
دوسری طرف جنرل قمر جاوید باجوہ کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ جنرل باجوہ حلفاً یہ کہنے کو تیار ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا جبکہ سابق جنرل فیض حمید کے ذرائع کا کہنا ہے تحریک عدم اعتماد کے وقت وہ ڈی جی آئی ایس آئی نہیں تھے۔ ابھی یہ بحث جاری تھی کہ مولانا فضل الرحمن نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ جنرل فیض حمید کا نام غلطی سے زبان پر آگیا تھا۔
سیاسی حلقے یہ سوال اٹھا رہے کہ جے یوآئی کی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمن کے بدلتے تیور اور پھر پیچھے ہٹنے کے پیچھے مقاصد کیا ہیں۔ کیا مولانا نے تحریک انصاف سے قربتیں بڑھانے کا اشارہ دے کر یہ پیغام دیا کہ اگر انہیں اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھا گیا تو وہ کیا کر سکتے ہیں اور کہاں تک جا سکتے ہیں۔
معروف تجزیہ نگار مظہر عباس نے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’دس اپریل 2022 کو سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کون سچ بول رہا ہے؟ مولانا فضل الرحمن یا سابق جنرل قمر جاوید باجوہ؟ ایک ٹروتھ کمیشن اس وقت کی ضرورت ہے یہاں ہر ایک کا اپنا سچ ہے۔‘
ویسے بھی مولانا عبدالکلام آزاد نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاست اور جنگ میں سب جائز ہے اور یہ کہ اسلام آباد کا سیاسی موسم بدلتے دیر نہیں لگتی۔

بعض تجزیہ نگاروں کی رائے یہ بھی ہے کہ جے یو آئی ف اور تحریک انصاف میں’ دوستی‘ آگے نہیں بڑھ سکے گی

اس کی مثالیں موجود ہیں کہ سیاست میں کل کے دشمن آج کے دوست بن گئے اور اقتدار میں ایک دوسرے کا دم بھرنے والے ایک دوسرے پر ’الزمات کے تیر‘ برساتے نظر آئے۔
بعض تجزیہ نگاروں کی رائے یہ بھی ہے کہ جے یو آئی ف اور تحریک انصاف میں’ دوستی‘ آگے نہیں بڑھ سکے گی جے یو آئی اور تحریک انصاف دونوں کو ہی سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
ایک موقف یہ بھی ہے کہ مولانا  زیادہ دیر اقتدار سے دور نہیں رہ سکتے۔ مولانا کے بدلتے تیور کا صلہ بعض انتخابی نتائج حق میں آنے سے ملنے لگا ہے۔ پھر مولانا نے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنے اور اپنے پرانے اتحادیوں کے پاس واپس جانے کا اشارہ دیا ہے۔
لگتا یہی ہے کہ جے یوآئی ف اور تحریک انصاف کی قربتیں محض ’سیاسی منگنی‘ تک رہیں گے اور بریک اپ ہو جائے گا کیونکہ دونوں کے ایک درمیان ایک تلخ ماضی بڑی رکاوٹ بنے گا پھر جے یو آئی کا موقف اور احتجاج ہی اس بات پر ہے کہ خیبرپختونخوا میں ان کی نشستیں چھینی گئی ہیں اور وہاں کوئی اور نہیں پی ٹی آئی جیتی ہے۔
ویسے دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمن ایک زیرک سیاستدان ہیں، عمران خان کے دور میں تحریک عدم اعتماد لانے والوں میں پیش پیش تھے۔ اب وہ جنرل فیض حمید کے حوالے سے اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہیں لیکن اپنا موقف بدلنا اور پی ٹی آئی کو گلے لگانا کیا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سیاست اور جنگ میں سب جائز ہے جس کا مطلب ہے کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں؟

شیئر: